غزہ : فاقہ کشی اور گولی کے بیچ موت کی منڈیجناب مسعود ابدالیکالم نگار ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی
اسرائیلی جرائم کو نسل کشی کیوں کہا؟ اقوام متحدہ کی نمائندہ پر امریکہ نے پابندی لگادیاسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنا دورہ امریکہ مکمل کرکے وطن واپس جاچکے۔ ان کی آمد سے پہلے صدر ٹرمپ کے سخت بیانات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ گویا وہ اسرائیلی وزیراعظم پر دبائو ڈال کر انہیں معقولیت پر مجبور کریں گے مگر نتیجہ امریکی سیاست کے ماہرین کی توقعات کے عین مطابق نکلا۔ امریکی سیاست دانوں کے لیے اسرائیل کی مخالفت ان کی سیاسی عاقبت کے لیے مہلک ہے۔ پہلے ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ ملاقات کے بعد نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ ہوگا، نہ پریس کانفرنس جس سے واضح تھا کہ نیتن یاہو اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے امریکی صدر سے تعاون اور غیر مشروط مدد کی ضمانت لینے آئے ہیں۔جہاں تک جنگ بندی یا امن معاہدے کا تعلق ہے، مزاحمت کار مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء پر زور دے رہے ہیں جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے ۶۰دن بعد دوبارہ جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کاروں اور مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ یعنی عارضی جنگ بندی کا مقصد صرف قیدیوں کی رہائی ہے، غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر بھی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اور وقت ہمارے حق میں ہیں، قیدی ہمارے پاس ہیں لہٰذا معاہدہ معقولیت کی بنیاد پر ہوگا۔قیدیوں کے لواحقین کے سخت دبائو کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں لیکن یہ بھی محض وقت گزاری محسوس ہوتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران ۱۰؍جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اسے Map of Partial Redeployment (MOPR) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع ’’رفح‘‘ اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے محور موراغ (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی، نئے MOPR میں غزہ کے تمام جانب ۳سے ۴کلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا اور بیت حانون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرار سمیت ۶۰ فیصد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انھیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جائے۔اس حوالے سے اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز رفح کے ملبے پر Humanitarian City کے نام سے ایک فلاحی جنت تعمیر کرنے کا اعلان کرچکے ہیں جہاں پہلے تو ان سات لاکھ بے گھروں کو آباد کیا جائے گا جو ساحلی علاقے المواسی میں خیمے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس انسانی شہر میں نہ بجلی و گیس ہوگی، نہ واپسی کی اجازت۔ آب نوشی کے لیے رفاہی ادارے سبیلیں سجا دیں گے اور رفتہ رفتہ غزہ کے پچیس لاکھ نفوس اس ملبے پر کھڑے امریکی و اسرائیلی طرز تعمیر کے حسین شاہکار کی زینت بن جائیں گے۔اس بستی کے بارے میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہوداولمرٹ کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلاحی شہر نہیں، اذیتی کیمپ (Concertation Camp) بن رہا ہے، اگر فلسطینیوں کو اس نئے نام نہاد فلاحی شہر میں دھکیلا گیا تو یہ نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) ہوگی، یہ تاثر نہیں بلکہ منصوبے کی لازمی تعبیر ہے۔(حوالہ: گارجین، لندن)
مزاحمت کاروں نے MOPR مسترد کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اہلِ غزہ کو یہ ضمانت بھی مطلوب ہے کہ عارضی جنگ بندی کا مقصد قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی ہو۔ اسی بنا پر مزاحمت کار چاہتے ہیں کہ ۱۸؍مارچ ۲۰۲۵ء کو دوبارہ شروع کی گئی اسرائیلی جنگ سے پہلے جو پوزیشنیں تھیں، اسرائیلی فوج ان تک واپس چلی جائے،جہاں تک اسرائیلی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کی درست تعداد صرف مزاحمت کاروں کو معلوم ہے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا، اسرائیلی تخمینوں کے مطابق ۲۰زندہ قیدی اور ۳۰؍اسرائیلی لاشیں اہلِ غزہ کے قبضے میں ہیں جن کا تبادلہ اسرائیلی جیلوں میں بنددس ۱۰۸۰۰؍ فلسطینیوں سے ہونا ہے۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں نیتن یاہو کو شرمندگی اٹھانی پڑی جب واشنگٹن میں قیدیوں کے لواحقین نے ان سے پوچھا کہ اگر معاہدہ ہوگیا تو پہلے کون رہا ہوگا؟ اس پر نیتن یاہو نے اعتراف کیا کہ مزاحمت کار رہائی پانے والوں کی فہرست مرتب کرتے ہیں، ہمارے پاس کوئی فہرست نہیں ہے۔امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ترجمان روینا شم داسانی کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک تقریباً ۸۰۰؍فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر قتل امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن (GHF)کے امدادی مراکز کے آس پاس ہوئے، اقوام متحدہ کے زیرانتظام مراکز پر بھی شکار جاری رہا اور ۱۸۳؍فلسطینی ان امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں، اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ فلسطینی، راستوں کی پابندی نہ کرنے اور عسکری علاقوں میں داخل ہونے کی بنا پر حادثات کا شکار ہورہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی ’’نوگو زون‘‘ میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فورا گولی مار دی جائے۔ فوجی کے مطابق اس کو کہا گیا کہ جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو۔
اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ہارتز (Haaretz) کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دیے ہیں۔اس قسم کے واقعات پر اب سلیم الفطرت اسرائیلی بھی ردعمل دے رہے ہیں۔ ۵؍اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی صحافی Israel Frey نے ٹویٹ کیا کہ دنیا آج ان پانچ نوجوانوں کے بغیر بہتر جگہ ہے جنہوں نے انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں حصہ لیا (یہ بہتر ہے) غزہ کے اس بچے کے لیے جس کا بغیر بے ہوشی کے آپریشن ہو رہا ہے، اس بچی کے لیے جو بھوک سے مر رہی ہے اور اس خاندان کے لیے جو بمباری کے دوران خیمے میں چھپا بیٹھا ہے۔ اسرائیلی ماں! اپنے بیٹوں کو جنگی مجرم کی حیثیت سے تابوت میں وصول مت کرو، ظلم کی سہولت کاری سے انکار کر دو! اسرائیل فرے کو اس جراتِ رندانہ پر گرفتار کرلیا گیا۔ دوسری جانب غربِ اردن سے سینئر فلسطینی صحافی، ناصر اللحام کو الدوحہ، بیت لحم کے قریب ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ناصر پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے چچا سام بدستور پرعزم ہیں، غزہ میں اسرائیلی مظالم کو نسل کشی کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھہرانے کے جرم میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ (Special Rapporteur)محترمہ فرانسیسکا البانیز (Francesca Albanese) پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کردیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ البانیز نے عالمی عدالت ِ انصاف کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے پہلے جب غزہ نسل کشی تحقیقات کے نتیجے میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی قیادت کے خلاف وارنٹ جاری کیے تو انصاف کی راہ میں معاونت کے بجائے ٹرمپ انتظامیہ نے ICCکی چار خواتین ججوں اور چیف پراسیکیوٹر پر تادیبی پابندیاں عائد کردی تھیں۔البانیز صاحبہ کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، اسکے جواب میں گوگل کے شریک بانی، سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو کھلی اور فاش سام دشمنی (Transparently Antisemitic)قرار دے کر سخت تنقید کی۔ رویوں اور طرزعمل کی اصلاح کے بجائے نسل کشی کی مذمت کو سام دشمنی قرار دینا شرمناک ہے۔
دوسری طرف نسل کشی کے خلاف عوامی جذبات میں بھی شدت آرہی ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں ہونے والا انگلستان کا Glastonbury رقص و موسیقی میلہ اسرائیلی فوج مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا تھا توگزشتہ ہفتے ہسپانوی شہر فالنسیا (Valencia) کے موسیقی میلے میں اس وقت ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی جب لاطینی گلوکار اور ریپ آرٹسٹ ریزیڈینتے (Residente)فلسطین کا پرچم تھامے اسٹیج پر آئے، ان کے ہزاروں مداحوں نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے فری فری فلسطین! کی دھن پر ناچنا شروع کیا، یا یوں کہیے کہ سازوں کی لے حق کی صدا میں تبدیل ہوگئی۔دنیا کے انصاف پسند لوگ اہلِ غزہ کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں اور ۱۳؍جولائی کو اٹلی کے شہر سیراکوس (Syracuse, Sicily) کی بندرگاہ سے انسانی امداد سے لدی ایک اور کشتی غزہ کیلئے روانہ ہوگئی۔ اس مشن کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا ہے۔ حنظلہ (Handala)نامی یہ کشتی ماضی میں روانہ کی جانے والی فریڈم فلوٹیلا جیسی عالمی کاوشوں کی طرز پر نکالی گئی ہے، جسکا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کی طرف مبذول کروانا اور اسرائیلی پابندیوں کو توڑنا ہے۔ اس کشتی پر فرانس کی ایک سیاسی جماعت کی سربراہ، فرانسیسی رکن پارلیمان، مہاجرین کے حقوق کی جرمن کارکن یاسمین اکر، امریکہ کے مزدور رہنما، اداکار جیکب برگر، اور انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ وکیل فرینک رومانو (Frank Romano)سمیت مختلف ممالک کے سول سوسائٹی کے کارکن، انسانی حقوق کے علم بردار اور امدادی تنظیموں کے ۱۵ نمائندے سوار ہیں۔سفر کے آغاز پر ارکان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے غزہ پہنچیں گے، چاہے اسرائیل طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرے۔
اسرائیل ۲۰۰۷ء سے غزہ کی مکمل بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کیے ہوئے ہے۔ اس سے قبل کئی امدادی قافلے غزہ کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔ ان میں سب سے معروف ۲۰۱۰ء میں ترکیہ سے روانہ ہونے والی مرمرہ کشتی ہے، جو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنی تھی اور اس میں دس ترک رضاکار شہید ہوگئے تھے۔ مرمرہ پر پاکستان کے معروف صحافی سید طلعت حسین بھی سوار تھے۔ حال ہی میں غزہ کی طرف جانے والی میدلین نامی کشتی کو بھی اسرائیلی بحریہ نے راستے میں روک کر اغوا کرلیا تھا اور اسے اشدود کی بندرگاہ پر لے جایا گیا۔غربِ اردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی بہیمانہ کارروائی جاری ہے۔ ۱۱؍جولائی کو رام اللہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل ۲۳سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کردیا۔ فلسطینی شہری غربِ اردن میں خربت التل کی طرف پرامن احتجاج کے لیے جارہے تھے جہاں ایک نئی غیرقانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں دہشت گردوں نے انہیں روک کر حملہ کردیا۔ اس حملے میں کم از کم دس فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے ایک کو گاڑی سے کچلا گیا۔ دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ واقعے سے آگاہ ہیں اور فوج کو روانہ کیا گیا ہے لیکن حسبِ معمول کسی آبادکار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ جب اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے سی این این کے سینئر صحافی جیرمی ڈائمنڈ وہاں پہنچے تو قبضہ گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ خوش قسمتی سے موصوف محفوظ رہے۔ اسرائیل کے پرجوش حامی ڈائمنڈ صاحب نے بلبلاتے ہوئے فرمایا یہ صرف ایک جھلک ہے اس حقیقت کی، یعنی قبضہ گردوں کی جارحیت جس کا سامنا مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو ہر روز کرنا پڑتا ہے۔غرب ِاردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوحِ مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ دہشت گردوں نے اسی دن یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگادی۔پانچویں صدی کا یہ کلیسا ایک تاریخی اثاثہ ہے اور اس قبرستان میں حضرت مسیح کے خلفا اور بہت سے بزرگ آرام فرما رہے ہیں۔آخر میں UNRWA کے سربراہ فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں:
’’غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکت ِ جرم ہے، اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ ہمارے اصولوں، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جارہا ہے جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کررہے ہیں، باتوں کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریک ہوں گے۔‘‘