مفکراسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ: حیات و آثار
مبصر:مولانا محمد اسلام حقانی
مفکراسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ: حیات و آثارمصنف: حافظ محمد عبدالمقیتضخامت:۴۹۳ صفحاتناشر: عظمتِ رفتہ نشرو اشاعت پاکستان
برصغیر پاک و ہند کا علمی منظرنامہ ہمیشہ سے ایسی عبقری شخصیات سے مالامال رہا ہے جنہوں نے دین کی خدمت صرف درسگاہوں کی چار دیواری میں نہیں بلکہ قلم و قرطاس، منبر و محراب، مجلس و مدرسہ اور مناظرے و مباحثے کے ہر میدان میں کی، دہلی، لکھنؤ، دیوبند، بریلی، سہارنپور، اکوڑہ خٹک، لاہور اور کراچی جیسے مراکز علم نے ایسی ایسی علمی قد آور ہستیوں کو جنم دیا جن کی یاد محض تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ آج بھی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے، ان میں بعض شخصیات ایسی بھی تھیں جو ظاہری شہرت سے دور گمنامی میں خاموشی سے علم و حکمت کے چراغ جلاتی رہیں مگر ان کی تاثیر اور افادیت دور رس رہی، انہی شخصیات میں سے ایک بزرگ شخصیت حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندویؒ کی بھی تھی، جن کا علمی و فکری سرمایہ، تدریسی فیض اور تحقیقی بصیرت ایک پورے علمی عہد کی آئینہ دار ہے، مولانا سندیلویؒ کی شخصیت ہمہ جہت تھی، وہ محدث بھی تھے، فقیہ بھی، مفکر بھی تھے اور قادر الکلام شاعر بھی، وہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ نفسیات، فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، آپ کئے اہم علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں، فرق باطلہ اور اپنے دور کے فکری و نظریاتی باطل فتنوں کے خلاف مولانا کی قلمی جدوجہد ان کی دینی غیرت اور اسلاف سے محبت کا زندہ ثبوت ہے، انہوں نے مختلف علمی مجلات میں مقالات بھی لکھے جن میں ماہنامہ ’’الحق‘‘، ماہنامہ ’’معارف‘‘، ماہنامہ ’’بینات‘‘، ماہنامہ ’’تجلی‘‘، ماہنامہ ’’الاحرار‘‘، ’’الرائد‘‘، ’’البعث الاسلامی‘‘، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ وغیرہ شامل ہیں،ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسی علمی شخصیت پر مستند سوانحی کتاب مرتب ہو جائے، اس ضرورت کے پیش نظر حافظ عبد المقیت صاحب نے آپ کی حیات و خدمات پر ایک بہترین کاوش مرتب کی۔
زیر تبصرہ کتاب ’’مفکرِ اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ: حیات و آثار‘‘ دراصل مولانا سندیلویؒ کے علمی و فکری، سوانحی و روحانی، تدریسی و تصنیفی اور دینی و نظریاتی پہلوؤں پر مشتمل ایک ہمہ جہت علمی کاوش ہے، جسے مؤلف موصوف نے کئی برسوں کی جستجو، محنت اور عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے، کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کی بہترین ترتیب، اختصار کے ساتھ جامعیت اور متوازن تجزیہ ہے، مؤلف موصوف نے غیر ضروری طوالت اور جذباتی مبالغہ سے بچتے ہوئے مولانا کی زندگی کے تمام اہم گوشوں کو نہایت سلیقہ مندی سے ادب و وقار کے ساتھ مستند انداز میں پیش کئے ہیں، سولہ ابواب پر مشتمل اس سوانحی دستاویز میں مؤلف موصوف نے مولانا کے خانوادے، تعلیم، طب، تصوف، تدریس، عسکری خدمات، مجلس تحقیقات شرعیہ کی نظامت، شعری ذوق، مکاتیب، افکار و نظریات، تلامذہ، تصنیفات و تحقیقات اور ان پر لکھے گئے تعزیتی مضامین وغیرہ کو نہایت خوش اسلوبی سے ترتیب دیا ہے اور کتاب کے آخری ابواب میں مولانا کے افکار و نظریات اور منتخب نگارشات کا خوبصورت انتخاب بھی شامل ہے، جو قاری کو نہ صرف مولانا کے علمی مزاج سے آشنا کرتا ہے بلکہ ان کی فکری عمق کا بھی پتہ دیتا ہے،یہ کاوش محض ایک سوانحی کتاب نہیں بلکہ برصغیر کی علمی روایت کے علمی و فکری تسلسل اور عصری دینی شعور کی نمائندہ دستاویز ہے، اس کتاب کو مرتب کر کے حافظ محمد عبدالمقیت صاحب نے نہ صرف ایک بزرگ عالم کی علمی زندگی کو محفوظ کیا بلکہ تحقیق و تدوین کی ایک اعلی مثال بھی قائم کی ہے جس پر موصوف لائق صد تحسین ہے، اللہ تعالی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)