ماہنامہ ’’الحق‘‘کی مسلسل اشاعت کے 60 سال

مولانا راشد الحق سمیع مدیر ’’الحق‘‘

ماہنامہ ’’الحق‘‘کی مسلسل اشاعت کے ۶۰ سال
اہداف،خدمات اورنتائج
یہ نصف صدی کا قصہ ہے   دو چار برس کی بات نہیں
الحمدللہ ! اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ماہنامہ ’’الحق‘‘نے اپنی جدوجہد اور پرورش لوح و قلم کے ساٹھ برس کا طویل سفرِ علم و آگہی بڑی کامیابی اور استقامت کے ساتھ طے کرلیا ہے اور آج ۶۱ویں برس اس شمع حق کی ضیاء باریوں سے ایک عالم روشن اور ایک جہاں فیض یاب ہورہا ہے۔اسی نعمت کبریٰ پر ہم خداوند کے حضور جتنا بھی اظہار امتنان و تشکر کریں تو یہ کم ہوگا، اس کی ابتداء کے وقت دارالعلوم حقانیہ، حضرت مولانا عبدالحق نور اللہ مرقدہ اور اس کے بانی حضرت والدمولانا سمیع الحق شہیدؒ نے جن مقاصد اور اہداف کا تعین کیا تھاوہ اہداف ومقاصد الحمدللہ بہ تائید ایزدی قارئین’’ الحق‘‘ اور اس کے لکھنے والوں کے پیہم ، تعاون کے نتیجے میں اکثر حاصل کرلئے گئے ہیں، ماہنامہ ’’الحق‘‘ ابتدائے سفر میں صرف ایک نشان ِ منزل ، ادب ودانش اور فکر و شعور کا فقط ایک استعارہ تھا، اب مقام شکر ہے کہ وہ خود ایک منزلِ مراد، منزل ِمقصود بلکہ مکمل مکتب ِ فکر کا روپ دھار چکا ہے۔
مجلہ ’’الحق‘‘ کی ساٹھ سالہ عرصہ پر محیط خدمات آج آسمان علم وصحافت پر شمس تاباں کی صورت میں ضوفشاں ہیں، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے قارئین اور خصوصاً اس کے لکھنے والے حضرات کا تعاون نہ صرف ہمارے لئے زادِسفر بلکہ مشعل ِ راہ بھی ثابت ہوا، آج سے ۶۰برس قبل بے سروسامانی اور صوبہ خیبرپختونخوا کے دور افتادہ چھوٹے سے پٹھانوں کے گاؤں سے زبان ِ اردو کے مجلے کا اجراء بظاہر تو جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن یہ دارالعلوم حقانیہ کی کرامت حضرت مولانا عبدالحق نوراللہ مرقدہ کی شبانہ روز دعائیں و اخلاص اور والد محترم حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا عزم مصمم اور علم و ادب اور زبان اردو سے خصوصی ذوق و شوق ہی تھا جو انہوں نے اس وادی پُرخار کو نہ صرف کامیابی کے ساتھ طے کیا بلکہ دنیا بھر میں اس کا لوہا بھی منوایا حالانکہ اُس وقت برصغیر پاک و ہند کی مسندِ علم وعرفان اور شعر وادب کی بزم اپنے وقت کے قدآور ادیبوں، محققوں ، صحافیوں اور بڑے بڑے رسائل و جرائد سے جگمگا رہی تھی،ایسے حالات میں اکوڑہ خٹک کی یہ ناتواں آواز نہ صرف کامیابی سے اُبھری بلکہ اپنے وقت کے تمام اکابرین نے اسے عصر حاضر کی اذان ِ حق قرار دیا، ایک ایسی روح پرور بلالی اذاں جس نے ہمیشہ کفرو ضلال کے بت کدوں اور ظالم و نااہل حکمرانوں کے ایوانوں میں صدائے حق کو نہ صرف بلند کیا بلکہ انہیں پیہم اپنی لطمہ ہائے حق کی بناء پر لرزائے رکھا ، گوکہ اس راہ میں کئی مشکلات اور مصائب کی رکاوٹوں نے قدم بہ قدم پیراہن استقامت کو تار تار کرنے کی کوششیں کیں لیکن خداوند قدوس کی رحمتوں اور نوازشوں کے طفیل ہر رکاوٹ اور ہر مصیبت خود ہی دور ہوکر فنا ہوگئی اور آج بھی یہ مشعل حق اپنا فریضہ کلمہ حق حسب سابق اور حسب روایت نبھا رہی ہے…
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
 اور   ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ماہنامہ ’’الحق‘‘ ہمیشہ سے مختلف الجہات، موضوعات اورمقالات ومضامین کی اشاعت کو ترجیح دیتا رہا،قرآن، تفاسیر، احادیث اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات، اسلام کی دعوت وتوحید،امر بالمعروف ونہی عن المنکراور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ ،فقہ اسلامی، تصوف و سلوک،معیشت و تجارت ،فلسفہ و تاریخ،ادب و شاعری ،سفرنامے، مکتوب نگاری،مغربی فکر وفلسفہ،استشراق،فتنہ انکارِ حدیث ،ردِ قادیانیت اور ردِ رفض وبدعت سمیت اس کے بنیادی ستون رہے، اس کے علاوہ خود کو کسی خاص موضوع یا خاص حلقے یا مسلک تک محدود نہ رکھا بلکہ اس کے ہمہ گیر موضوعات، عالمگیر مقالات، سیاسی تجزیے،علمی مضامین اورخصوصاً علم و تحقیق اور عصر حاضر کے جدید مسائل اور سائنسی تحقیقات و ایجادات اس کی خصوصی دلچسپی کا باعث رہے، اسی خصوصیت کی بنا پر ہر مسلک اور ہر مکتب فکر نے ماہنامہ ’’الحق‘‘ کے صفحات کو اپنے رشحات قلم اور اپنے پاکیزہ افکار و خیالات سے ہمیشہ مزین فرمایا اور اپنی نگارشات کی اشاعت کے لئے اسے ایک بہترین پلیٹ فارم سمجھا۔ اسی
 طرح کافی عرصہ سے علمی حلقوں کی یہ خواہش تھی کہ ماہنامہ ’’الحق‘‘کی ۶۰سالہ خدمات پر ایک مفصل اور تحقیقی خصوصی نمبر شائع کرنا چاہیے،جیسے کہ راقم نے دارالعلوم کی پچاس سالہ خدمات پر ’’الحق‘‘کا خصوصی شمارہ اور ایک درجن سے زائد نمبرات الحمدللہ تیس سالہ ادارت کے دوران مرتب کئے۔ آج اس اہم موقع پر ماہنامہ ’’الحق‘‘ کے بانی ، مدیر اول اور روح رواں حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ ، اسکے دوسرے مدیرونگران حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہ ،منتظم اعلیٰ جناب شفیق الدین فاروقی مرحوم ، معاون مدیر حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی صاحبؒ ، ناظم حاجی نثار محمد ؒاور موجودہ عملہ مولانا محمد اسلام،مولانا حبیب اللہ شاہ ،برادرم بابرحنیف کی شبانہ روزخدمات کو بھی میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
 ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں   ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے