قومی اسمبلی کا تاریخی فیصلہ

سفارشات اور آئین میں ترمیم کا بل

٭ رسول اکرم ؐکو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نہ ماننے والا یا نبوت کا دعوی کرنے والا یا
مدعی نبوت کو نبی یا مصلح ماننے والا مسلمان نہیں۔
٭ قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو آئندہ انتخابی فہرستوں یا رجسٹریشن میں غیرمسلم لکھا جائیگا۔
٭ کوئی شخص ختم نبوت کے عقیدے کے خلاف پرچار نہیں کرسکے گا، خلاف ورزی قابل تعزیر
جرم ہوگی۔
۷ ستمبر ہماری تاریخ کا نہایت تاب ناک اور تاریخی دن تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس دن اپنے الگ الگ اجلاسوں میں آئین میں ترمیم کا ایک تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا جس کے تحت پاکستان میں قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیاگیا ہے۔ آئین کی دفعات نمبر۱۰۶ اور نمبر۲۶۰میں ترمیم کی گئی ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ ایسا کوئی شخص جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو یا خود کو کسی بھی صورت میں نبی یا مصلح ہونے کا دعوی کرتا ہو یا ایسے کاذب نبی کو مانتا ہو وہ مسلمان نہیں ہوگا۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ قادیانی اور لاہور کے احمدی فرقے کے تمام ارکان کو آئینی اور قانونی طور پر پاکستان میں بسنے والے دیگر غیر مسلموں کی مانند سمجھا جائے گا اور عیسائیوں، ہندوں، سکھوں، بودھوں، پارسیوں اور شیڈول کاسٹس کی طرح ان کے لیے بھی اسمبلیوں میں اضافی نشستیں ہوا کریں گی۔
آئین میں یہ ترمیم قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے کی گئی۔ یہ سفارشات خصوصی اسمبلی کمیٹی نے ایک متفقہ قرارداد کی صورت میں منظور کیں۔ ان کے تحت امتِ مسلمہ کے نظریہ ختم نبوت کو جو آئینی تحفظ دیا گیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا بھی دی جاسکے گی۔ قانون سازی کے ذریعے تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ۱۰۶ الف کے بعد۲۹۵ ب کا اضافہ کیا جائے گا، جس کے تحت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  کے آخری نبی ہونے کے عقیدے کے منافی کسی بھی قسم کا پرچار قابلِ تعزیر جرم ہوگا۔ سفارشات کے تحت آیندہ انتخابی فہرستوں میں قادیانیوں کا اندراج بھی غیرمسلموں کے زمرے میں ہواکر ے گا۔

آئین پاکستان کی متعلقہ دفعات

قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کی روشنی میں آئینِ پاکستان کی متعلقہ دفعات کی ترمیم کے بعد یہ صورت ہوگی۔
آرٹیکل نمبر۲۶۰:  جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی انداز میں نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذہبی مصلح پر ایمان لاتا ہے، وہ از روئے آئین و قانون مسلمان نہیں ہے۔
آرٹیکل نمبر۱۰۶ کلاز نمبر۳: آرٹیکل نمبر۱۰۶ کلاز نمبر۲ میں طبقوں کے لفظ کے بعد قادیانی یا لاہوری گروپ کے اشخاص جو’’احمدی‘‘کہلاتے ہیں، کے جملے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
اضافے کے بعد کلاز نمبر۳ کی صورت یہ ہوگی: ’’صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ کی کلاز نمبر میں دی گئی نشستوں کے علاوہ ان اسمبلیوں میں عیسائیوں، ہندوں، سکھوں، بدھوں، پارسیوں اور قادیانیوں یا شیڈول کاسٹس کے لیے اضافی نشستیں ہوں گی۔

آئین میں دوسری ترمیم کے بل کا متن

یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج اغراض کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے لہٰذا بذریعہ ہذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔
مختصر عنوان اور آغاز نفاذ
(۱) یہ ایکٹ آئین (ترمیم دوم) ایکٹ ۱۹۷۴ء کہلائے گا۔
(۲) یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔

آئین کی دفعہ نمبر میں ترمیم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا دفعہ۱۰۶ کی شق۳ میں لفظ ’’اشخاص‘‘کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘کہتے ہیں)درج کیے جائیں گے۔
آئین کی دفعہ نمبر۲۶۰ میں ترمیم: آئین کی دفعہ نمبر ۲۶۰میں شق نمبر۲ کے بعد حسب ذیل نئی شقیں درج کی جائیں گی۔
(۳) جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جو آخری نبی ہیں) کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے۔

بیان و اغراض

جیسا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایا ہے کہ اس بل کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، اسے غیرمسلم قرار دیا جائے۔عبدالحفیظ پیرزادہ وزیر
 انچارج

تاریخی قرارداد کا متن

قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے متفقہ طور پر جو قرارداد طے کی ہے اور جس کی سفارشات کو اسمبلی نے منظور کیا ہے، وہ یہ ہے:
قومی اسمبلی کے کل ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی متفقہ طور پر طے کرتی ہے کہ حسب ذیل سفارشات قومی اسمبلی کو غور اور منظوری کے لیے بھیجی جائیں۔
کل ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی اپنی رہنما کمیٹی اور ذیلی کمیٹی کی مدد سے اس کے سامنے پیش یا قومی اسمبلی کی طر ف سے اس کو بھیجی گئی قراردادوں پر غور کرنے اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے اور گواہوں بشمول سربراہان انجمن احمدیہ ربوہ و انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور کی شہادتوں اور جرح پر غور کرنے بعد متفقہ طور پر قومی اسمبلی کو حسب ذیل سفارشات پیش کرتی ہے۔
(الف)  کہ پاکستان کے آئین میں حسب ذیل ترمیم کی جائے۔
(اول) دفعہ(۱۰۶) میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں)کا ذکر کیا جائے۔
(دوم) دفعہ۱۰۶ میں ایک نئی شق کے ذریعے غیرمسلم کی تعریف درج کی جائے۔
مذکورہ بالا سفارشات کے نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی کی طر ف سے متفقہ طور پر منظور شدہ مسودہ قانون منسلک ہے۔
(ب) کہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۰الف میں حسب ذیل تشریح درج کی جائے۔
تشریح:  کوئی مسلمان جو آئین کی دفعہ ۲۶۰کی شق نمبر ۳کی تشریحات کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے یا عمل یا تبلیغ کرے وہ دفعہ ہذا کے تحت مستوجبِ سزا ہوگا۔
(ج)  کہ متعلقہ قوانین مثلا قومی رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۷۳ء اور انتخابی فہرستوں کے قواعد ۱۹۷۴ء میں منتخبہ قانونی اور ضابطہ کی ترمیمات کی جائیں۔
(د) کہ پاکستان کے تمام شہریوں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں گے، جان و مال، آزادی، عزت اور بنیادی حقوق کا پوری طرح تحفظ اور دفاع کیا جائے۔
(۱) عبدالحفیظ پیرزادہ (۲) مولانا مفتی محمود
(۳) مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی(۴)پروفیسر غفور احمد
(۵)غلام فاروق(۶) چوہدری ظہور الٰہی
(۷)سردار مولانا بخش سومرو
(ماہنامہ ’’الحق ‘‘شعبان، رمضان۱۳۹۴ ھ؍ستمبر۱۹۷۴ء ، ج ۹، ش ۱۲)

مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی

نائب مدیر ماہنامہ ’’الحق‘‘