مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ کی مرتب کردہ کتاب ’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ پر مولانا سمیع الحق ؒکا پیش لفظ
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور نتیجتاً مرزائیوں کو قانونا غیرمسلم اقلیت قرار دیا جانا پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس میں تحریک کے قائد مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، قائد جمعیت علمائے اسلام مولانا مفتی محمودؒ اور قائد شریعت شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کا کردار سب سے ممتاز اور نمایاں رہا۔ تحریک کی مرکزی قیادت کی نگاہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒکی شخصیت پر کتنا اعتماد تھا، اس کا اندازاہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ :’’مجلس عمل کی تشکیل کے موقع پر جب شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒنے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒکا نام مجلس عمل کی صدارت اور تحریک کی قیادت کے لیے پیش کیا تو سب نے آپ کی تائید کی اور حضرت سید بنوریؒ متفقہ طور پر ’’مجلس عمل‘‘ کے صدر منتخب کرلیے گئے‘‘۔ اس کے بعد تحریک میں حضرت شیخ الحدیثؒکے مرحلہ وار کردار، اس کے لیے مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ تحریک کا ایک اہم ، آخری اور انقلابی موڑ وہ تھا جب تحریک کی جانب سے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی پر قادیانیت کے خلافِ اسلام عقائداور مذموم عزائم آشکارا کرنے کے لیے حکومت کی ہدایت کے مطابق مفصل تحریری بیان داخل کرنے کا فیصلہ کرلیا جسے ایک ہفتہ میں اخذ و انتخاب، ترتیب و تدوین، کتابت و طباعت کے تمام مراحل کے بعد داخل کرنا تھا۔ ایسی قطعی دستاویز کی تیاری کے لیے اکابر علما نے حضرت شیخ الحدیثؒکے فرزند ارجمند حضرت مولانا سمیع الحقؒ اور حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒکے فرزند ارجمند مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کا انتخاب کیا۔ حضرت مولانا سمیع الحق ؒنے اکابر علماء کی سرپرستی میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ساتھ مل کر وہ عظیم کتاب ’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ تیار کی جو بالآخر قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی اور قطعی الثبوت دستاویز کی بنیاد پر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس کتاب کی طباعت و اشاعت پر پابندی کے باوجود حضرت مولانا سمیع الحق ؒنے اسے دارالعلوم حقانیہ کے شعبہ نشر و اشاعت ’’مؤتمر المصنفین‘‘کی جانب سے شائع کرکے پوری دنیا میں قادیانی دجل و تلبیس کو آشکارا کیا۔ کتاب کا مقدمہ انہی کا لکھا ہوا ہے، ہم ذیل میں آپ ہی کی وہ تحریر نذر قارئین کررہے ہیں جس سے تحریک کا تمام پس منظر، اکابر علمائے دیوبند کے کردار، حضرت شیخ الحدیثؒ سمیت ان کے قابل فخر فرزند حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی بارآور مساعی بھی نمایاں ہوجاتی ہیں۔ (ادارہ)
____________________
الحمدﷲ وحدہ و الصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ اما بعد
عالمی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے ملت مسلمہ کی وحدت و سا لمیت، نظریاتی یک جہتی اور سیاسی قوت کو ختم کرنے کے لئے جو حربے استعمال کیے، اس میں قادیانیت ایک ایسا ضرب کاری تھا جس کے مہلک اثرات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔ جن علماء اور مفکرین امت کو اس فتنہ کی ہلاکت آفرینیوں کا احساس تھاوہ پہلے ہی دن سے اس شجرہ خبیثہ کے قلع قمع کے لیے کمربستہ ہوگئے اور تحریر و تقریر کی پوری صلاحیتوں سے امت کو اس فرقہ ضالہ کے دجل و تلبیس سے آگاہ کرتے رہے مگر اسلام کے اساسی عقائد توحید و رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کی نزاکت و اہمیت سے ناآشنا روشن خیال طبع اسے مولویوں کی’’تنگ نظری‘‘پر محمول کرتے رہے اور جب مرزائیوں کا آقائے ولی نعمت انگریز برصغیر سے چلاگیا تب بھی پاکستان کے دینی حمیت سے عاری حکمران قادیانیت کے بارہ میں جمہور مسلمانوں کی جدوجہد کو نظرانداز کرتے رہے تاہم آنکہ ۱۹۷۴ء میں مرزائیوں کے مرکز ربوہ کے اسٹیشن پر مسلمان نوجوانوں پر جارحانہ حملہ کی شکل میں ایک غیبی واقعہ رونما ہوا۔ اس ظالمانہ جسارت نے پاکستان کے عام مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ دینی حمیت کا جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا وہ یک لخت پھٹ پڑا اور ایمان کی چنگاری شعلہ جوالہ بن گئی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابر اور ملک کے دیگر جید علماء و مشائخ کی جدوجہد اور رہنمائی نے احتجاج کو ایک ہمہ گیر اور منظم تحریک کی شکل میں بدل دیا اور ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘کی صورت میں ملک کے ہر مکتب فکر کے اکابر علماء، ممتاز قومی رہنماؤں اور اہم دینی جماعتوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم وجود میں آیا۔ پوری ملت کے اتحاد و یگانگت کا ایسا روح پرور اور باطل شکن مظاہرہ برصغیر میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہوگا اور یہ کرشمہ تھا اس والہانہ عشق و محبت، ایمان آفرین قلبی تعلق اور روحانی رابطوں کا جو ہر ادنی امتی اور غلام کو آقائے دو جہان خاتم النبیینؐ کی ذات سے ہے، یہ تحریک ایمان و یقین اور عشق و محبت کی بنیادوں پر اٹھی اور سورج کی روشنی اور حرارت کی طرح ملک کے گوشے گوشے کو روشن اور گرماگئی۔ ادھر اس وقت کی سوشلزم اور لادینیت کی علم بردار حکومت اس تحریک کو اولا سختی سے دباتی رہی۔ اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو لطائف الحیل سے ٹالنا چاہا، زعمائے تحریک کی کردار کشی، ذرائع ابلاغ سے پروپیگنڈا الغرض! یہ سارے ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے مگر جب پانی سر سے گزرنے لگا تو بالآخر حکومت وقت نے امت کے اس اجماعی اور طے شدہ مسئلہ کو غور و خوض کے لیے قومی اسمبلی کے سپرد کردینے کا فیصلہ کیا۔
اس غرض سے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کی حیثیت دی گئی اور طے پایا کہ مرزائیوں کی ہر دو جماعتوں (قادیانی اور لاہوری)کے سربراہوں کو اپنا موقف پیش کرنے دیا جائے اور قومی اتحاد کے علماء و ارکان دلائل و براہین سے اپنا موقف پیش کریں، پھر اس کی روشنی میں قومی اسمبلی کوئی آئینی قدم اٹھائے۔ میرے نزدیک اس فیصلہ کے مضمرات میں بھی یہی ارادہ کارفرما تھا کہ اس طویل بحث و مباحثہ اور نقد و جرح کے لیے پچیس تیس دن کا جو موقع درکار ہوگا، اس دوران تحریک کی شدت ختم ہوجائے گی اور کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کا یہ سو سالہ مطالبہ ایک بار پھر التوا میں ڈال دیا جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی کرم گستری مسلمانوں کے شامل حال تھی۔ ’’مجلس عمل‘‘کے اکابر نے فیصلہ کیا کہ ایک طرف تو قومی اسمبلی کے محاذ پر اس دجالی فرقہ کے ائمہ دجل و تلبیس سے رو در رو دلائل و براہین سے مقابلہ کیا جائے اور ارکان اسمبلی پر قادیانیت کے خلاف اسلامی عقائد اور مذموم عزائم آشکارا کیے جائیں اور دوسری طرف ملک بھر میں تحریک کو اسی زور و شور سے جاری رکھا جائے جب تک کہ قومی اسمبلی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہ دے۔
اس وقت مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء اور جماعتوں کے زعما قومی اسمبلی کے اجلاس کی وجہ سے راولپنڈی میں تھے۔ مجلس عمل کے صدر محدث کبیر علام العصر مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرکردہ مبلغین کی معیت میں راولپنڈی کو ہیڈکوارٹر بناچکے تھے۔ ادھر حکومت کی ہدایات تھیں کہ ہر فریق یا جو رکن قومی اسمبلی میں کوئی تحریری بیان داخل کرانا چاہے، اسے ایک ہفتہ کے اندر اندر پیش کرنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے وقت نہایت کم اور موضوع نہایت گھمبیر، نازک اور ہمہ پہلو سیر حاصل روشنی ڈالنے کا مستحق ، ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کتاب کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے کہنہ مشق مبلغین جن کی زندگی قادیانیت کے تعاقب میں گزری تھی۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں، اخبارات و رسائل کے انبار کیساتھ راولپنڈی بلالیے گئے۔ تالیف کتاب کیلئے قرعہ فال ناچیز راقم الحروف اور برادر محترم فاضل اجل مولانا محمد تقی عثمانی کراچی کے نام نکلا۔
کتابت کے لیے لاہور سے سلطان الکاتبین جناب سید نفیس الحسینی (نفیس رقم)اپنے چیدہ اور ماہر خوشنویس تلامذہ کی ٹیم کے ساتھ پہنچ گئے۔ حضرت مولانا بنوری قدس سرہ امیر مجلس کی قیادت میں راولپنڈی صدر کے ایک قدیم ہوٹل ’’میٹرو پول‘‘ کو اپنا مستقر بنایا تھا، جو کسی زمانہ میں شان بان کا ہوٹل رہا ہوگا مگر اب اپنی قدامت اور بوسیدگی کی وجہ سے ازکار رفتہ بن چکا تھا اور اس کے صاحب خیر مالک نے اسے تحریک کے دوران استعمال کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔
ہم سب لوگ ایک جنگی مہم کی طرح اس کتاب کی تیاری میں لگ گئے۔ ایک حصہ راقم الحروف اور ایک حصہ برادرم مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے جاتے۔ جو ورق تیار ہوتا ، ختم نبوت کے مبلغین حضرت مولانا محمد حیات صاحب مرحوم فاتح قادیان، حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب اور دیگر حضرات اپنے بڑے بڑے پیٹیوں میں بند مرزا غلام احمد اور اس کے جانشینوں کی اصل کتابوں اور قدیم دور کے الفضل وغیرہ رسائل کو ٹٹول ٹٹول کر کتاب میں دیے گئے حوالوں کا اصل متن سے تطبیق کراتے۔ یہ تحقیق اور مراجعت اس لیے بھی ضروری تھی کہ قادیانی دجل و تلبیس کا ایک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ ایڈیشنوں کو بدل بدل کر چھاپتے ہیں اور بحث و مناظرہ کے دوران حوالہ سے انکار کربیٹھتے ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے یہ طے پایا تھا کہ جو بھی فریق اپنے تحریری و تقریری بیانات میں کوئی حوالہ دے گا تو اصل کتاب یا ماخذ بھی اسمبلی میں پیش کرے گا۔ اس طرح اس کتاب میں دیے گئے حوالوں کی وجہ سے دو ڈھائی سو قادیانی کتابیں، رسائل اور مجلات بھی اسمبلی میں پیش کرنی تھیں۔ کتاب کا جتنا بھی مسودہ مرتب ہوجاتا، ہم لوگ اسے حضرت مولانا بنوری قدس سرہ کی معیت میں قومی اسمبلی میں شامل اس وقت کے اکابر علما و زعما مجلس عمل کو سناتے۔
الغرض! ’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘یا قادیانیوں کے سو سالہ جارحیت، بغاوت اور ظلم و ستم، دجل و تلبیس پر مبنی داستان یا بیان استغاثہ مرتب ہوگیا۔ الحمدللہ کہ مختصر اور ہنگامہ خیز حالات میں بھی موضوع کے دینی، علمی اور سیاسی ہر ہر پہلو پر سیر حاصل بحث و مواد اس میں آگیا۔ کتاب مکمل ہوئی، جو بڑی مشکل نظر آرہی تھی تو سب حضرات نے اللہ تعالی کا شکرادا کیا اور بقول حضرت علامہ بنوری مرحوم یہ بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات عالیہ کا کرشمہ اور ان ہی کا ایک معجزہ تھا کہ یہ سارا معرکہ ایسے افراتفری میں صرف ہفتہ بھر میں سرہوگیا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے بند اجلاس شروع ہوئے۔ کتاب بھی قانونا صرف قومی اسمبلی کے ارکان میں تقسیم کردی گئی۔ پریس کو یا کسی غیررکن میں اس کی تشہیر خلاف قانون تھی۔
اس وقت قادیانیوں کے ہر دوسربراہ مرزا ناصر احمد اور صدرالدین لاہوری بھی اپنے اپنے بیانات کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش ہوئے۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کے توسط سے جرح بھی ہوتی رہی۔ مسلمانوں کی طرف سے پیش نظر کتاب اسمبلی میں پڑھ کر سنانے کی سعادت بھی ہمارے مخدوم مولانا مفتی محمود قدس سرہ کے حصہ میں آئی، اس لیے کہ وہ اسمبلی میں موجود اس وقت کے مختلف مکاتب فکر اور سیاسی جماعتوں کے حزب اختلاف کے رہنما تھے اور انہی پر اتفاق ہونا تھا۔ حضرت مفتی صاحب مرحوم نے اجلاس کی کئی نشستوں میں کتاب پڑھ کر سنائی اور پورے ارکان نے ہمہ تن گوش ہوکر توجہ سے سنی۔ اکثریت جو پیپلز پارٹی کے ارکان اور وزراء کی تھی، انہیں نہ تو کبھی قادیانی جماعت کے مذہبی اعتقادات اور پیچ در پیچ اصطلاحات و تاویلات پر غور کا اتفاق ہوا تھا، نہ مذہب کے نام پر اس گورکھ دھندے سے وہ آگاہ تھے پھر اس فرقے کا سیاسی پہلو، استعماری سرگرمیوں اور عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں، برطانوی سامراج کا اس کی تشکیل و ترقی اور اشاعت میں سرگرم حصہ، تقسیم ملک کے وقت قادیانیوں کا شرمناک کردار، عالم عرب کے خلاف اسرائیل اور مغربی سامراج کی آلہ کار ہونے کی تفصیلات اور اس کے قرائن و شواہد یہ سب باتیں جب ان لوگوں کے علم میں آئیں تو وہ محوحیرت ہوگئے اور ان کے دلوں میں جو نرم گوشہ تھا، وہ نفرت سے بدل گیا۔اس دوران مرزائیوں کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور ان کے ہمراہ صدرالدین لاہوری کی جو لن ترانیاں، دلائل سے گریز، بیانات میں تضاد اور بے سرو پا تاویلات کے جو مناظر ایوان کے سامنے آئے اس نے اور بھی سونے پر سہاگہ کا کام دیا۔ بہرحال ایک طویل بحث و مناقشہ اور رد و قدح کے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر وہ ایمان آفریں فیصلہ کیا، جس کے نتیجہ میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے اور آئین میں ترمیم کے ذریعہ ملت مسلمہ کے اس موقف پر مہر حقانیت ثبت کرلی گئی۔
مسلمانوں کی اس عظیم فتح میں پیش نظر کتاب کا ایک بنیادی کردار ہے۔ یہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو اس تحریک کا زریں باب ہے مگر بعض ناگزیر حالات بالخصوص قومی اسمبلی کے اس بحث و مباحثہ کی اشاعت پر پابندی کی وجہ سے یہ کتاب اپنی اصلی شکل میں مسلمانوں کے سامنے تاحال نہیں آسکی تھی۔ اصل شکل میں اس لیے کہ حضرت بنوری قدس سرہ نے اپنے ہاں سے اس کا عربی ترجمہ موقف العالم الاسلامی من القادیانی کے نام سے بڑے اہتمام سے شائع کرا کر اسے عالم عرب میں تقسیم کرایا اور دارالعلوم کراچی کے زیراہتمام اس کا انگریزی ترجمہ (The view of the Ummah on Qadyanism)چھپ کر شائع ہوا مگر کتاب اپنے اصل متن اور اصل شکل میں پہلی بار شائع کی جارہی ہے کیونکہ اس وقت چند ہی محدود نسخے صرف ارکان اسمبلی اور زعمائے حکومت میں تقسیم کیے گئے تھے۔
یہ میری دیرینہ آرزو تھی کہ یہ سعادت ’’مؤتمر المصنفین‘‘ دارالعلوم حقانیہ کو نصیب ہو اور الحمدللہ کہ یہ تمنا آج پوری ہورہی ہے، جبکہ اصل کتاب کا پابندی کا پیریڈ بھی غالباً ختم ہوچکا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب بلکہ اس وقت اسمبلی میں کی گئی ساری نقد و جرح اور بحث و مباحثہ کو مرتب کرکے قوم کے سامنے لایا جائے۔ صدر پاکستان جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب نے ۱۹۷۴ء کے اس دستوری ترمیم کے منطقی تقاضوں کی تکمیل کے لیے حال ہی میں قادیانیوں کے بارہ میں ایک آرڈی ننس کی شکل میں قانون سازی کرکے ایک عظیم الشان قدم بھی اٹھادیا ہے اور ملک و بیرون ملک کے پڑھے لکھے حلقوں میں قادیانیت کے پس منظر اور پیش منظر جاننے کی دلچسپی ہے۔ ایسے وقت میں اس کی اشاعت ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبولیت سے نوازے اور یہ قادیانیوں کی دسیسہ کاریوں، سازشوں، اسلام دشمن منصوبوں اور دجالی فلسفہ بحث و تاویل کے سمجھنے کا ذریعہ ثابت ہو۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز
سمیع الحق
خادم دارالعلوم حقانیہ و صدر مؤتمر المصنفین اکوڑہ خٹک
۱۵ رمضان المبارک ۱۴۰۴ ھ(حال نزیل لاہور)
مولانا راشد الحق سمیع
مدیراعلیٰ ماہنامہ ’’الحق‘‘