ماہنامہ ’’الحق‘‘ اور رد قادیانیت

ماہنامہ ’’ الحق‘‘ کے مہم ترین مقاصد اور فرائض میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی شامل ہے کہ اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا ہرمحاذ پر مقابلہ کیا جائے اور مسلمانوں کو ان کے مکروہ عزائم سے آگاہ کیا جائے اور الحمد للہ مقام شکر ہے کہ ’’الحق‘‘ نے بطریقہ احسن یہ ذمہ داری بھی انجام دی۔دراصل اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہی مختلف فرق باطلہ نے اپنی مکروہ سازشوں اور فریب کاریوں کا جال بننا شروع کردیا تھا اور شروع ہی سے ان کی یہ کوششیں رہیں کہ کسی طرح سے بھی قصر اسلام میں نقب لگاسکیں اور کسی بھی صورت حال اس کی شان عظمت اور وقار کو دھندلایا جاسکے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ان دجالی فتنوں، شیطانی تحریکات اور ائمہ تلبیس نے لبادہ اسلام میں مقدس دین اور امت مسلمہ کو شر و فساد ، تفرقہ بازی اور ملمع سازی اور دجل و تلبیس ، فریب و ریا کے ہتھکنڈوں سے اسلام کے مضبوط حصار میں دراڑیں اور شگاف پیدا کرنے کی ناپاک کوششیں کیں، چنانچہ ہر دور میں انہی فتنوں کی سرکوبی کیلئے قدرت حق نے رجال کار اور مردان باصفا پیدا کیے، جن کی انتھک کوششوں اور شبانہ روز مساعی سے ان فتنوں کے عزائم اور افکار خبیثہ امت مسلمہ کے سامنے طشت ازبام ہوگئے اور انکے اسلام کے خلاف سارے منصوبے اور سازشیں تار عنکبوت ثابت ہوئے اور ان فتنوں کا ٹڈی دل جو کہ ایک سیلاب بلا سے کم نہیں تھا، گلشن اسلام کی تروتازگی و شادابی کو پژمردہ نہ کرسکا۔
چنانچہ اسی سلسلے میں جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں کچھ عرض ہے۔ حضور ؐکا ارشاد گرامی ہے: سیکون فی متی ثلاثون دجالون کذابون کہ عنقریب میری امت میں تیس دجال اور کذاب پیدا ہوں گے اور آنحضرتؐ کی اسی پیشنگوئی کے مطابق جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب نے باقاعدہ اپنی نبوت کا دعوی کیا اور کثیر تعداد میں لوگ اس کے زیر اثر آگئے تو ظاہر ہے کہ اس عظیم فتنہ کو دبانا ضروری تھا۔ اسی مقصد کی خاطر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس دجالی فتنہ کے خلاف بھرپور جہاد کیا۔ چنانچہ آپ ؓکے اس بروقت اقدام کی وجہ سے یہ فتنہ سرد کردیا گیا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی ابن حرب ؓنے واصل جہنم کیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ فتنہ نت نئے روپ میں اور بھیس بدل کر مختلف انداز میں سرابھارتا رہا ہے، انہی ائمہ تلبیس، مسیلمہ کذاب، ابن سبا اور دیگر دجالین کے ٹولے کے ایک اور ذریت فاسدہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے اسلاف کے ڈگر پر چلتے ہوئے پھر عقیدہ ختم نبوت کے بدر کامل کی بڑھتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر فطرتاً بھونکنا شروع کردیاتھا لیکن عوا الکلب لا یظلم البدر کے مصداق قصر ختم نبوت میں اس کی نقب زنی کی یہ واردات کامیاب نہ ہوسکی اور بقول غالب    آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے   موتوا بغیظکم
چنانچہ جریدہ ’’الحق‘‘ میں وقتا فوقتا امت مسلمہ کی روح کی اسی ناسور اور نبوت محمدی کے خلاف اس عالمی صیہونی سازش قادیانیت اور اس فتنہ کی دسیسہ کاریوں اور فتنہ سازیوں کی قلعی کھول دی گئی ہے۔ چاہے اس پر علمی انداز میں رد ہو یا ان کے فرسودہ اور خود ساختہ دلائل کی بیخ کنی ہو، یا سیاسی لہجہ میں اس فتنہ کے عالم اسلام کے خلاف سازشیں ہوں تو اس موضوع پر الحق میں انتہائی ٹھوس ، اہم اور مفید کام ہوا ہے اور انہی مقالات و مضامین کے سلسلہ میں جناب ابومدثرہ صاحب کے مضامین جب ’’الحق‘‘ کے صفحات پر آئے تو ان کے ٹھوس دلائل اور مضبوط و محکم شواہد کا ان قادیانی ملمع سازوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور پھر وہی مضامین ’’قادیان سے اسرائیل تک‘‘ نامی کتابی شکل میں آئے تو جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور آج تک وہ لوگ اسکا جواب نہ دے سکے۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
اور پھر جب تمام مسلمانوں کو اسی فتنہ کی زہر افشانی کا علم ہوا تو ہر طرف سے اس قادیانی شجرہ خبیثہ کو بیخ و بن سے اکھیڑنے اور اس کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شروع ہوا۔ چنانچہ والد محترم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب نے اسی ضمن اور تناظر میں یہ روح پرور اور ایمان افروز زوردار اداریہ بعنوان ’’مطالبہ اقلیت ایک سرسری جائزہ ‘‘لکھا ۔ اس طویل اور پرمغز اداریہ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’پاکستان کے نئے دستور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت خاتم النبیین بطور آخری نبی کے ایک حقیقت تسلیم کرلی گئی ہے۔ اس دستور کی تکمیل کے تین ہفتے بعد کشمیر کی وادیوں سے ایک روح پرور آواز اٹھی اور سارے فضائے بسیط میں پھیل گئی۔ پاکستان کی سرزمین اس آوازہ حق سے گونج اٹھی، باطل کے در و یوار لرز اٹھے، کفر تھرا گیا اور جعلی نبوت کے ظلمت کدوں کی تاریکی اور بڑھ گئی۔ یہ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایمان میں ڈوبی ہوئی آواز تھی۔ یہ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایمان میں ڈوبی ہوئی آواز تھی۔ یہ حرارت ایمانی اور حمیت ناموس رسالت کی ترجمانی کرنے والا فیصلہ تھا جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا اعلان حق کیا گیا تھا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی اسلامیان پاکستان میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔اس جراء ت مندانہ اور مومنانہ فیصلہ پر آزاد کشمیر اسمبلی اور صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم خان کو بے پناہ خراج تحسین پیش کیا گیا کہ ایسا کرنا ایمان کا تقاضا تھامگر جن کے دل اس روشنی سے محروم تھے اور جن کا باطن ناموس رسالتؐ پر مرمٹنے کے جذبات سے عاری تھا اور جو آنکھوں کے نہیں مگر دلوں کے اندھے تھے ان کے خرمن دجل و تلبیس پر یہ قرارداد ایک صاعقہ بن کر گری۔ ان کی سازشوں کا سلسلہ تیز سے تیز تر اور گہرا ہوتا چلا گیا ۔آزاد کشمیر کی حکومت اس ’’جرم ‘‘کی پاداش میں معزول کی جاچکی ہوتی اگر ملت مسلمہ کا جذبہ فدائیت اور ناموس رسالتؐپر مرمٹنے والے عزائم اس منصوبے کے آڑے نہ آتے،جن لوگوں کو یہ فیصلہ ناگوار گزرا ہے ان کی حقیقت سردار عبدالقیوم خان ہی کے ان الفاظ سے معلوم کی جاسکتی ہے جو انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان کے نام ایک تفصیلی مکتوب میں لکھے اور کہا کہ ’’دراصل بات میرے خلاف الزامات کی نہیں بلکہ آپ حضرات کو تکلیف اس امر کی ہے کہ میں یہاں آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کا نفاذ تیزی سے کیوں کررہا ہوں اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی توفیق کا مجھ سے مطالبہ ہورہا ہے۔ غالبا قادیانیوں کی بھی آپ کو اتنی پریشانی نہیں جتنی اسلامی نظام کے نفاذ کی ہے‘‘۔بہرحال یہ مسئلہ صرف آزاد کشمیر کا نہیں، صرف برصغیر کا نہیں نہ صرف عالم اسلام کا ہے بلکہ روے زمین پر بسنے والے محمد عربی ؐکے ہر نام لیوا امتی اور دربار رسالتؐ کی چوکھٹ سے نسبت رکھنے والے ہر ادنیٰ سے ادنیٰ غلام کا ہے۔ ’’قادیانی مسلم نزاع‘‘جتنا بھی وقتی طور پر دبادیا جائے گا اتنا ہی شدت سے یہ امت کے اساسی تصور ایمان اور تصور رسالت کی وجہ سے مسلمانوں کو دعوت فکر و عمل دیتا رہے گا۔ اسلام کے قطعی معتقدات قرآن و سنت کی متواتر تعلیمات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت، رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت غلامی، اسلاف کے اجماعی فیصلے اور ملی اتحاد و یک جہتی کی حفاظت اور اس طرح کے ہزاروں ملی، دینی، سیاسی اور معاشرتی تقاضے ہمیں مجبور کریں گے کہ ہم ایک بار اٹھ کر اس ’’نبوت کاذبہ‘‘کے سارے نشانات ایک ایک کرکے مٹادیں۔ اسلامی لبادہ اوڑھ کر دنیا میں پھیلنے والے اس دجالی کفر کو جب تک پوری طرح ٹھکانے نہ لگایا جائے قادیانیت پوری امت کے لیے ایک چیلنج بنی رہے گی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو نہیں ہوسکے گی۔ قرآن ہمیں ایسے معاملات میں وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کا حکم دیتا ہے۔ جو لوگ اس بارہ میں رواداری اور وسیع النظری کا مطالبہ کرتے ہیں اور جو ایسی باتوں کو تنگ نظری اور فرقہ واریت سمجھتے ہیں وہ ایمان کی حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور ہزار بار دعوی اسلام و ایمان کے باوجود خدا کی نگاہ میں ان کی وقعت سید الشہدا حضرت حمزہ ؓکے قاتل وحشی ؓکے پیشاب کے قطرے کے برابر بھی نہیں جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری کا کفارہ اپنے وقت کے جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو تہ تیغ کرنے کی شکل میں دیا اور جب تک اس ملعون کو جہنم رسید نہ کیا اس وقت تک خدا کی رحمت و مغفرت کے امیدوار نہ بن سکے۔تعجب ہے کہ بعض لوگ قادیانیوں کے بارہ میں مسلمانوں کے مطالبہ اقلیت پر بھی چین بہ جبین ہوجاتے ہیں حالاں کہ یہاں معاملہ کفر و اسلام کا نہیں اسلام اور ارتداد کا تھا اور پوری اسلامی تاریخ میں ایسے لوگوں کی سزا قتل سے کم ہرگز نہ تھی۔ اسے مسلمانوں کی رواداری کہیے یا مجبوریاں کہ وہ قادیانیوں کے بارہ میں انہیں’’اقلیت قرار دینے‘‘کا کم تر درجہ مطالبہ کرتے ہیں۔تو آئیے!ہم اس اقلیت کے مطالبہ کا ایک سرسری جائزہ لیں،جہاں تک اقلیت کا مسئلہ ہے۔دین و دنیا کے ہر شعبے میں علیحدہ امت ہونے کا اعلان: قادیانیوں کا بہ حیثیت ایک الگ اور متوازی امت ہونے کے یہ نہ صرف ایک بدیہی حقیقت ہے بلکہ خود مرزائیت اپنی تمام تر تعلیمات و اعمال میں نہ صرف ایک متوازی امت ہونے کا اعتراف کرتی ہے بلکہ اپنے پیروں کو عبادات، معاملات، معاشرت، دین و دنیا کے ہر شعبہ زندگی میں اس علیحدہ جداگانہ تشخص کی تلقین و تاکید کرتی چلی آرہی ہے اور اس دائرہ سے باہر تمام غیر مرزائی مسلمانوں کو ایک علیحدہ امت اور الگ گروہ کہنے اور سمجھنے کے ہزاروں شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔ مرزا غلام احمد نے کہا ہے کہ "ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہ کیا، وہ مسلمان نہیں ہے(تشحیذ الاذہان جلد نمبر۶ص ۱۳۵) اور کہا کہ ’’میری بیعت میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے‘‘(قادیانی قول و فعل الیاس برنی ص ۱۷) ان کے خلیفہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک اعلان کیا کہ ’’مرزا کی دعوت قبول نہ کرنے والے خواہ انہوں نے مرزا کا نام تک بھی نہ سنا ہو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘(ص ۱۷)ان کا انکار موجب غضب الٰہی اور کفر ہے(ص۱۵) ایسے لوگ خدا و رسول کے نافرمان اور جہنمی ہیں’’۔(ص ۱۶ )اپنے نہ ماننے والوں کو مرزا کیسے ’’پاکیزہ ‘‘القاب سے نواز کر کہتا ہے : کل مومن یتقبلنی إلاذریۃ البغایا  ’’میرے مخالف جنگلوں کے سر ہوگئے ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں‘‘(نجم الہدی ص ۵۳) ’’ہماری فتح کا قائل نہ ہونے والا ولد الزنا ہے، حلال زادہ نہیں‘‘مرزا کے خلیفہ اور فرزند محمود احمد نے قادیانیت کے نمائندہ کی حیثیت سے گورداسپور کی عدالت میں کہا:’’کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے (اس لیے)غیر احمدی کافر ہیں‘‘ (الفضل ۲۶جون ۱۹۲۲) قادیانیت کے عالمی ترجمان ظفراللہ خان کا محمد علی جناح صاحب کے نماز جنازہ کا انکار کس کو معلوم نہیں۔ اور جب پوچھا گیا توظفراللہ نے کہا کہ مجھے کافر حکومت کا مسلمان ملازم سمجھئے یا مسلمان حکومت کا کافر ملازم۔ مسٹر جناح سے بہت پہلے اسی ظفر اللہ نے اپنے ایک اور محسن سرفضل حسین کے جنازہ سے بھی یہی سلوک کیا اور وہ دور ہندو سکھوں کے ساتھ الگ کھڑے رہے (قادیانی قول و فعل ص۲۳) یہی نہیں بلکہ جب بھی مرزائیوں کے موقف کی ترجمانی کی ضرورت ہوئی، ظفراللہ نے عدالت میں بھی اسی موقف کی تائید کی کہ وہ غیر احمدیوں کو کافر کہتے ہیں،(ص ۱۹) ابھی پچھلے سال ایم ایم احمد نے اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کے مقدمہ میں مرزائیوں کے اسی موقف کو بڑی ڈھٹائی سے دہرایا اور جنازہ کے مسئلہ میں ظفراللہ کے موقف کی بھی تصویب کی۔ مسلمانوں کے بارہ میں مرازائیوں کا یہ موقف اتنا کھلا اور واضح ہے کہ ۱۹۵۳کی منیر انکوائری نے بھی ہزار بددیانتی اور جانب دارانہ رویہ کے باوجود اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہم نے اس بارہ میں احمدیوں کے بے شمار اعلانات دیکھے ہیں اور ہمارے لیے اس کی کوئی تعبیر سوائے اس کے ممکن نہیں کہ مرزا کے نہ ماننے والے ان کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ (رپورٹ ص ۲۱۲)یہ تو مسلمانوں کے بارہ میں ان کا اصولی طرز عمل ہوا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے ایک الگ اور جداگانہ امت سمجھنے لگے۔ آگے اس اصولی موقف کو قائم رکھنے کے لیے دین و دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس میں مرزائیوں نے مسلمانوں سے الگ تشخص قائم رکھنے کی تلقین نہ کی ہو۔‘‘ (اسلام اور عصر حاضر، ص ۳۳۶)
یہی وجہ ہے کہ ان اداریوں اور اسی فرقہ کے متعلق تحقیقی مضامین نے مسلمانوں میں ایک جوش، نیا ولولہ اور اس شیطانی و طاغوتی قوت کے خلاف ایک تحریک بپا کی اور ۷۴ میں قادیانیت کے خلاف ملک گیر تحریک اٹھی، جس میں بالآخر مسلمانان ملت کی قربانیاں رنگ لائیں اور اسی شجرہ خبیثہ کو امت مسلمہ سے باہر پھینک دیا گیا اور یہ فرقہ غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
ع   بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
اور پھر جب قادیانیت اور امت مسلمہ کا موقف نامی کتاب کی ترتیب و تدوین کا موقع آیا تو والد صاحب نے اس میں بھرپور حصہ لیا اور یہی مسودہ قومی اسمبلی کے فورم پر سنایا گیا، جس میں حضرت مولانا مفتی محمود ؒ، دادا جان حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحب قدس سرہ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒوغیرہم کا کردار نمایاں تھا۔ اس تاریخی فتح مبین پر ’’الحق‘‘ رمضان المبارک۱۳۹۴ھ میں والد صاحب مدظلہ ایڈیٹر ’’الحق‘‘ نے یہ پرجوش ادارتی نقش آغاز تحریر فرمایا جو ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ ص۲۳۶ پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔بلاشبہ ’’الحق‘‘ کے دقیع متین اور پروقار مشن اور صحافتی و سیاسی و عملی انداز نے بہت سے قادیانیوں کو اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور کیا اور بہت سے لوگ جو کہ اس دام ہمرنگ زمین میں پھنس گئے تھے
ع    دام ہمرنگ زمین بود گرفتار شدم
بتوفیق ایزدی اس جال اور شیطانی دلدل سے نکل گئے؛ کیوں کہ الحق نے جذبات کے بجائے ایک ٹھوس علمی انداز اپنایا اور سینکڑوں صفحات پر مشتمل مضامین و مقالات اس شجرہ خبیثہ اور انگریز کے اس تخم فساد کی بیخ کنی اور اس فرنگی پودے کی تار و پود اکھیڑنے میں صرف کیے۔
    (ماہنامہ ’’الحق‘‘ جمادی الثانی ۱۳۹۴ھ؍نومبر ۱۹۹۵ ، ج ۳۱، ش ۲)

امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ