مسئلہ ختم نبوت ؐ
حضرت علامہ مولانا شمس الحق افغانیؒ
شیخ التفسیرحضرت علامہ مولانا شمس الحق افغانی ؒنے ماہنامہ ’’الحق‘‘ میں تین اقساط (مارچ ،اپریل، جولائی ۱۹۷۱ء) پرمشتمل مسئلہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے دجل و تلبیس کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا،موضوع کی مناسبت سے ’’خصوصی اشاعت‘‘ میں اس مضمون کا خلاصہ بطور تبرک شامل کیا جارہا ہے ۔ (ادارہ)
__________________
ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مشکوک و مشتبہ نہیں رہا اور نہ اس پر بحث کی ضرورت سمجھی گئی لیکن برصغیر پاک وہند میں انگریزی حکومت نے اپنے مفاد اور تاریخی اسلام دشمنی کی تکمیل کے لیے اسلام کے اس مرکزی عقیدہ پر ضرب لگانا ضروری سمجھا؛تاکہ مسلمانوں کی وحدت کو ختم کیا جائے۔ اس سازش کی تکمیل کے لیے انگریزوں کو پنجاب کے ضلع گورداسپور سے ایک ایسا شخص ہاتھ آیا جو اس مقصد کی تکمیل کے لیے موزوں تھا، اس نے انگریزوں کی حمایت کے تحت اپنی امت بنائی اور نئی نبوت کی بنیاد ڈالی اور بہت سی کتابیں لکھیں، ان کتابوں کے بنیادی مقصد تین ہیں:
(۱) اپنی شخصیت اور دعاوی پر زور دینا۔
(۲) تحریفات ِ قرآن کو معارف بتلانا۔
(۳) مسلمانوں کی دشمنی اور انگریزوں کی دوستی پر زور صرف کرنا۔
یہی اس کی ساری کاروائی کا خلاصہ ہے۔ بقول اقبال مرحوم:
سلطنت اغیار را رحمت شمرد
رقصہائے گرد کلیسا کرد و مرد
اس لیے ناواقف مسلمانوں کے ایمان بچانے کے لیے ضروری ہوا کہ ختم نبوت پر کچھ عرض کریں۔ اسلام کو ایک عمارت سمجھو اور اہم عمارت کے تین نقشے ہوتے ہیں جن کو انجینئرمرتب کرتا ہے۔
ذہنی و فکری نقشہ تحریری و کتابتی نقشہ خارجی نقشہ
اسلام عقائد، اخلاق و عبادات کی ایک عمارت تھی جس کا پورا نقشہ علم ِ الٰہی میں منضبط تھا۔ پھر اس نقش کو کتاب و سنت میں منضبط کیا گیا جو عمارت اسلام کی گویا تحریری شکل تھی۔ پھر مسلمانوں کا تقریباً چودہ سو سال کا مسلسل عمل اس نقشہ اور عمارت ِ اسلام کا خارجی وجود تھا۔یہ تینوں وجود باہمی متفق ہوتے آئے ہیں۔ اللہ کے علم میں اسلام کی جو حقیقت تھی وہ ہی قرآن وحدیث میں نمودار ہوئی اور قرآن و حدیث میں اسلام کی جو حقیقت تھی وہی مسلمانوں کے ذہن و فکر میں متواتر نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی گئی۔ اسلام کے بنیادی امور میں مسلمانوں نے اختلاف نہیں کیا، اگرچہ دیگر امور میں اختلاف رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بہت فرقے پیدا ہوئے لیکن آج تک انہوں نے ختم نبوت کی بنیادی حقیقت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا البتہ اسلام اور اسلام کے سرچشموں یعنی کتاب و سنت سے الگ ہوکر انکار کیا جاسکتا تھا اور کیا گیا…قرآن کریم کی جس قدر تفاسیر عہدِ صحابہ سے لے کر عہدِ مرزا تک لکھی گئی ہیں یا بعد از عہدِ مرزا، یا قرآن کے جس قدر تراجم کیے گئے ہیں سب نے خَاتَمَ النَّبِیِّنَ کی تفسیر و تشریح یہ کی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی لیکن جس گورداسپوری کو نبی بننے کی سوجھی صرف اس نے وہ بھی اول میں نہیں بلکہ آخر میں اپنا عقیدہ دربارہ ختم نبوت اور اپنی تشریح ختم نبوت کو بدل ڈالا تاکہ نبی بننے کی گنجائش نکل آئے جس سے اس کو خلاف امید کامیابی ہوئی۔اس کا اپنا بیان ہے کہ مجھے یہ گمان نہ تھا کہ مسلمان اس چیز کو قبول کریں گے کہ نبوت جاری ہے لیکن انگریزی تعلیم اور انگریزی حکومت کی حمایت اور زوال فہم و عظمت دین نے ناشدنی کو شدنی بنادیا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّآ إِلَیہِ رَٰجِعُونَ یہاں تک کہ اس مصنوعی نبوت نے ایک کامیاب اور نفع بخش فیکٹری کی شکل اختیار کی اور مرتد سازی کانام تبلیغ اسلام رکھ کر اس فیکٹری کی آمدنی میں خوب اضافہ کیا گیا۔دوسری طرف اس نبوت کے ماننے والوں پر عہدوں اور تنخواہوں کی بارش ہونے لگی جس نے انہیں یہ احساس دلایا کہ یہ سب کچھ اس خود ساختہ نبوت پر ایمان لانے کی برکت ہے یا بالفاظ دیگر مرزا کا معجزہ ہے جس سے مسلمانوں کی اکثریت محروم ہے۔ اگر حالات اور ہماری غفلت کی رفتار یہی رہی تو عجب نہیں کہ مسلمانوں کو ایک اور اسرائیل سے دوچار ہونا پڑے گا لیکن اس وقت کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی…قرآن کی ایک سو زائد آیات میں مسئلہ ختم نبوت بیان کیا گیا ہے…اسی طرح دو سو سے زائد احادیث ختم ِ نبوت کے متعلق موجود ہیں اور اسی پر عقیدہ قائم ہوا ہے۔ قرآن کی کسی آیت اور احادیث میں سے کسی حدیث میں سلسلہ نبوت کے جاری کرنے کی خبر نہیں دی گئی اور نہ صحابہ،تابعین، تبع تابعین او رنہ مابعد زمانہ میں مرزا کے علاوہ کسی کا یہ عقیدہ رہا ہے۔ ایسی صورت میں محض قیاس آرائی اور نو تراشیدہ تاویلات سے اجرائے نبوت کا عقیدہ پیدا کرنا کسی قدر عقل اور دین سے محرومی کی دلیل ہے۔