عظمت عقیدہ ختم نبوتؐ اور رد قادیانیت

شیخ الحدیث حضرت مولانا انوار الحق مدظلہ
مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ

کئی ہفتوں سے ختم نبوتؐ کی اہمیت، عظمت اوراس ایمانی عقیدہ پر دشمنوں کے حملوں، سازشوں اور کفر کے علم برداروں کی ان لادین عناصر کی سرپرستی کے واقعات صراحۃً واشارۃ بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں،اسی طرح ہر دورمیں جب اس مسئلہ کے سلسلہ میں امت محمدی کو للکارا گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود کے دور سے لے کر آج تک الحمدللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق وپروانوںنے دیوانہ وار میدانوں میں نکل کر ان کی قوت، طاقت اور جھوٹے دعوؤں کو اپنے غیرت ایمانی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلحہ سے پاش پاش کردیا۔ مختلف ادوار میں اس بے دین مدعیان نبوت کے خلاف تحریکیں چلیں،حتیٰ کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک نے توفتنہ قادیانیت کی رہی سہی کسر بھی پوری کرکے مرزائیت کی کمر توڑ ڈالی۔

اللہ بھلا کرے ان عقیدہ ختم نبوت کی بقاء و سلامتی کے لئے مضبوط کردار ادا کرنے والے علمائے کرام بالخصوص علمائے حق کی علمی و روحانی مرکز دیوبند کے فرزندان کی کہ انہوں نے ختم نبوت کے موضوع پر سینکڑوں، مدلل، تحقیق پرمبنی کتب بمع حوالہ جات لکھ کر پوری ملت کو اس شجرہ خبیثہ کی سازشوں، بے بنیاد دلائل کی مکمل پوسٹ مارٹم کرکے سب کچھ روز روشن کی طرح واضح کردیا۔ ہم اور آپ کی ذمہ داری کہ فضول رسائل وجرائد او رلغویات پر مبنی کتابوں کی بجائے اپنے دین کے اساسی مسئلہ ختم نبوت پر حملہ آور ہونے والے اس بدترین طبقہ کے عقائد اوران کے ردّ میں لکھے گئے ذخیروں کا مطالعہ کرکے اپنے دین کی حفاظت کریں جو کہ ایمان کو بچانے کیلئے قدم قدم میرے اور آپ کیلئے معاون ثابت ہوں گے۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں صرف چند اکابر علماء محدث کبیر حضرت مولانا عبدالحقؒ ،مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ‘ مولانا شاہ احمد نورانیؒ، حضرت مولانا عبدالحکیم ؒ ‘ حضرت مولانا صدرالشہید اور دو تین بزرگ او رموجود تھے جن کے دلوں میں عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت، ملک میں نفاذ اسلام اورملک سے منکرات کے خاتمہ کے علاوہ اورکوئی خواہش نہ تھی، اسی جذبہ کی خاطر ان بزرگوں نے اسمبلی کی رکنیت قبول کی تھی ورنہ ان کا مقام اور اللہ نے جو دینی عظمت عطا فرمائی ان کے سامنے اسمبلیوں کی رکنیت کی کوئی وقعت نہ تھی۔ ان چند علماء کے دانشمندانہ اورحکیمانہ جدوجہد کے نتیجہ میں حکومت وقت قادیانیوں کو اقلیتی فرقہ قرار دینے پر تیار ہوئی، پوری اسمبلی کوایک کمیٹی کی حیثیت دے کر اسے مرزائیوں کی حیثیت متعین کرنے کا اختیار دیا گیا، قادیانی فرقہ کے امیر مرزا ناصر اور لاہوری احمدی جماعت کے سربراہ کو قومی اسمبلی میں طلب کیا گیا ۔ ان پر جرح اوران کو دفاع کے لئے مواقع دئیے گئے۔

مرزائیوں نے اسمبلی میں ایک ’’محضرنامہ‘‘ پیش کیا جس کا تفصیلی اور مدلل جواب حضرت شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہیدؒ ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ نے مجلس عمل کے سربراہ محدث کبیر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی نگرانی میں تحریر فرمایا۔طویل بحث کے بعد قادیانی امراء کو شکست ہوئی اورقومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین کے دفعہ (۲) ۳۰۶ اور (۳) ۲۶۰ کے ذریعہ قادیانیوں کے ہر دو فرقوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اللہ نے امت مسلمہ کے تمام مسلمانوںکو سرخرو فرمایا۔

اس تحریک کی کامیابی کے لئے کروڑوں مسلمانوں جن کو قربانیوں اور اذیت کو برداشت کرنے کے صبر آزما دور سے گزرنا پڑا۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کے اس بابرکت ترامیم سے ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ان پر جبرواستبداد کے جو ادوار گزرے اس عظیم مقصد کے حصول کے بعد وہ تمام تکالیف بھول کر اللہ کے حضور بطور شکر سجدہ ریز ہوئے۔ ترمیم کے الفاظ بالکل واضح ہیں جس میں کسی قسم کا شک وشبہ کی گنجائش نہیں، وہ الفاظ یہ ہیں:

’’جوشخص حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم (جو آخری نبی ہیں) کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے آئین و قانون کے اغراض کیلئے وہ مسلمان نہیں ہے‘‘

رب العزت اسلام جو دین حقہ اورعالمگیرمذہب ہے کو ہر اس نقب زن کے سازشوں سے محفوظ رکھے جوکفریا اسلام کے جامہ میں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ۔(آمین)