درہم و دینار کو لوٹانے کی تدابیر پر چند گزارشات
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانیلیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ
تصور کیجئے کہ ایک شخص کراچی کے صرا فہ بازار میں سونے چاندی کے زیورات یعنی جیولری کی ایک دکان کھولتا ہے اور اپنی اس دکان میں وہ مختلف اقسام کے سونے و چاندی کے زیورات مثلاً کنگن، کڑا، انگوٹھی، لاکٹ، زنجیر اور جھمکا وغیرہ کی خریدوفروخت کرتا ہے۔کچھ عرصے میں اس شخص کا کاروبار چمک جاتا ہے اور کراچی میں اس کی زیوارت کی دکان بطور برانڈ ابھرتی ہے اور مزید کچھ سالوں میں اس کی دکان کی شاخیں کراچی کے مختلف بازاروں میں کھل جاتی ہیںپھر اس کے کاروبار میں مزید ترقی ہوتی ہے اور پاکستان بھر کے شہروں میں اس کا کاروبار پھیل جاتا ہے۔ اللہ پاک اس کے کاروبار میں مزید ترقی دیتا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا جیولری کا کاروبار پاکستان سے نکل کر بیرونِ ملک بھی پھیل جاتا ہے اور بیرونِ ملک مختلف شہروں میں اس کی دکان کی کئی شاخیں کھل جاتی ہیں۔
کاروبار کے آغاز میں یہ مختلف اقسام کے سونے و چاندی کے زیورات مثلا کنگن، کڑا، انگوٹھی، لاکٹ، زنجیر اور جھمکا وغیرہ کو بیچتے آرہا تھا مگر اب اس نے گولڈ بار(سونے کی سلاخ)یعنی سونے کے بسکٹ بیچنا شروع کردئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس شخص کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ وہ مختلف نقش کندہ سونے و چاندی کے سِکے بھی بیچنا شروع کردے نیز اگر آرڈر پر ان سونے کے سِکوں پر لوگوں کے نام بھی کندہ کردیا جائے تو جب لوگ ان نقش کندہ سونے و چاندی کے سِکوں کو اپنے جاننے والوں کو بطور ہدیہ یعنی گفٹ دیں گے تو یہ ان کے ہدیہ میں مزید جاذبیت پیدا کردے گا پھر وہ سوچتا ہے کہ اگر ان سونے کے سِکوں پر مہر نبوت، قرآنی آیات و دینی عبارات،خلفائے راشدین
کے نام و دیگر اسلامی تاریخ کی اہم شخصیتوں کے ناموں کو بھی کندہ کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ لوگ شوق سے ان نقش کندہ سونے و چاندی کے سِکوں کو خریدنا شروع کردیں گے ۔ ان سِکوں کو خریدتے ہوئے کسی کے حاشِیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئے گی کہ یہ سِکے لیگل ٹینڈر ہیں اور نہ ہی انہیں بطور آلہ مبادلہ استعمال کیا جاسکتا ہے، لوگ تو بس ان سِکوں کو بطور ہدیہ دینے ، شوقیہ جمع کرنے یا پھر نقدی محفوظ کرنے کیلئے خریدتے ہیں۔اب یہ شخص ایک قدم مزید آگے بڑھتا ہے اور یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ یہ سونے و چاندی کے سِکے یعنی درہم و دینار جن پر مہر نبوت، قرآنی آیات و دینی عبارات، خلفائے راشدین کے نام و دیگر اسلامی تاریخ کی اہم شخصیتوں کے ناموں کو کندہ کیا گیا ہے یہ اسلامی کرنسی ہے اور دراصل اسلامی نظامِ حکومت کی طرف ایک قدم ہے اور اس سلسلے میں ایک شریعہ ایڈوائزری بوڑد بھی تشکیل دے دیتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان نقش کندہ سونے و چاندی کے سِکوں کی آن لائن انٹرنیٹ پر فروخت بھی شروع کردی جاتی ہے اور شریعہ کمپلائنس کا دعوی بھی کردیا جاتا ہے۔ جاری کردہ سِکوں کے ریکارڈ کو مربوط و محفوظ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اوران سِکوں کی آن لائن خریدوفروخت کو بلاک چین سے جوڑ دیا جاتا ہے نیز وہ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ ان نقش کندہ سونے و چاندی کے سِکوں کو خریدنے سے مسلمان پوری دنیا کے معاشی نظام سے مقابلہ کریں گے یعنی ان نقش کندہ سونے کے سِکوں کی مدد سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈالر کی اجارہ داری ختم کی جائے گی۔
دیکھئے! اگر کوئی یہ اعتراض کرتا ہے کہ ہم نے اوپر دی گئی اپنی مثال میں زیورات کے کاروبار اور سونے و چاندی کے سِکوں کی خریدوفروخت کو پورا ایک افسانہ بنادیا ہے اور پھر اس افسانے میں ایک شخص کو اس کاروبار کے ذریعے مسلمانوں کے معاشی عروج سے جوڑ دیا ہے تو یہ دنیا میں کہاں ہوتا ہے اور کون اسے عقلا درست سمجھتا ہے؟ ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حقائق یہی ہیں ، آجکل ایسا ہو بھی رہا ہے اور کچھ لوگ اسے درست بھی سمجھتے ہیں۔
سونے و چاندی کے سِکوں کے اجرا سے متعلق چند سوالات
بعض حضرات یہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر ہمیں اسلامی نظام واپس لانا ہے تو پہلے ہمیں درہم و دینار کے نظام کو واپس لانا ہوگا۔ ان حضرات کا دعوی ہے چونکہ قرونِ اولی ، خلافتِ بنو امیہ، خلافتِ عباسیہ میں درہم و دینار یعنی سونے اور چاندی کے سِکوں کو بطور زر استعمال کیا جاتا تھا لہٰذا اسلام میں زر کا درجہ صرف ثمنِ خلقی یعنی سونے کو ہے۔نیز وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ تقریباً ایک صدی پہلے جو عالمی تجارت تھی وہ بھی سونے کے سِکوں کے ذریعے ہی انجام پاتی تھی اور سونے کو بطور زر استعمال کیا جاتا رہا ہے لہٰذا اب بھی اس کا عملی استعمال ممکن ہے،یہ علیحدہ بات ہے کہ سونے کے ذریعے عالمی تجارت کا اختتام بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement )کے اختتام پر ہوا اور اب مروجہ کاغذی کرنسی یعنی فیاٹ کرنسی ملکی اور عالمی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ان حضرات کے دعویٰ پر تھوڑا سا غور کرنے سے جو سوالات فورا ذہن میں آتے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں ۔
٭ کیا درہم و دینار کو اسلامی نظامِ معیشت کی بنیاد کہا جاسکتا ہے اور کیا درہم و دینار مسلمانوں کی کرنسی ہے ؟
٭ کیا کسی انفرادی شخصیت یا پرائیوٹ کمپنی کو اسلامی کرنسی جاری کرنے کا شرعی و قانونی طور پر اختیار ہے؟
٭ کیا شریعتِ اسلامی میں تخلیقِ زر اور بالخصوص سونے چاندی سے زر کی تخلیق سے متعلق کچھ اصول بیان کئے گئے ہیں؟
٭ کیا اسلامی تاریخی شخصیات کی شبِیہ و مختلف اقسام کی عبارات کندہ سونے و چاندی کے سِکوں کی فروخت سے اسلامی نظامِ معیشت کو واپس لوٹایا جاسکتا ہے؟
٭ کیا ایسا دعوی کرنا کہ ان نقش کندہ سونے کے سِکوں کی مدد سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈالر کی اجارہ داری ختم کی جائے گی سائنسی، معاشی و تکنیکی طور پر درست ہے؟
٭ کیا عمومی طور پر درہم و دینار لوٹانے کی یہ تدابیر درست ہیں اور کیا یہ کوششیں واقعی بار آور ثابت ہوسکتی ہیں؟
٭ کیا ان نقش کندہ سِکوں کا اجرا بطور لیگل ٹینڈر ہوا ہے اور کسی یورپی ملک یا اسلامی ملک نے ان سِکوں کو بطور لیگل ٹینڈر اختیار کیا ہے؟
٭ کیا یہ نقش کندہ سِکے جاری کرنے والوں نے حکومت باقاعدہ اجازت لے کر تخلیقِ زر کا عمل اپنے ذمہ لے لیا ہے؟
٭ کیا ان نقش کندہ سِکوں کا کسی شہر یا ملک میں بطور زر یا آلہ مبادلہ بھی استعمال ہورہا ہے؟
یہ بات واضح رہے کہ ہم ہرگز مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں کررہے اور نہ ہی یہ کہہ رہے کہ خدانخواستہ اسلامی نظامِ معیشت واپس نہ آئے بلکہ ہماری تو یہ دعا ہے کہ اسلامی ممالک اور خاص طور پر ہمارا پیارا ملک پاکستان معاشی طورپر طاقتور، مستحکم اور خود کفیل ہو اور اسلامی فلاحی ریاست کا حقیقی نمونہ پیش کرے نیز اس مضمون سے ہرگز یہ تاثر نہ لیا جائے کہ مضمون نگار سودی بینکاری نظام کی حمایت کررہا ہے اور نہ ہی اس بات کی حمایت کررہا ہے کہ خدانخواستہ غیر حقیقی معیشت کو فروغ دیا جائے بلکہ اس مضمون کا مقصد ان مغالطوں کا دور کرنا ہے جو کہ سونے چاندی کے اسلامی سِکوں کے عنوان سے پیش کیا جارہا ہے اور ہم صاحبانِ علم کی اس جانب توجہ دلارہے ہیں کہ اسلامی نظامِ معیشت کے عنوان سے درہم و دینار کو لوٹانے کیلئے جو طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ان کا تجزیہ اور ان پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
سونے و چاندی کے سِکوں پر خانہ کعبہ کی شبِیہ و مختلف عبارات کندہ کرنا
ہماری رائے میں محض اسلامی تاریخی شخصیات کی شبِیہ سونے و چاندی کے سِکوں پر کندہ کر کے مذکورہ بالا طریقے پر فروخت سے اسلامی نظامِ معیشت کو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا۔
آئیے! اسے مثال سے سمجھتے ہیں، برطانیہ کی رائل منٹ کمپنی لمیٹڈ (The Royal Mint) جو کہ برطانیہ کی سِکے بنانے کی آفیشل کمپنی ہے اور ایچ ایم ٹریژری (His Majestys Treasury )کا حصہ ہے، مختلف انواع و اقسام کے سونے کے بسکٹ، سِکے اور میڈیلز جاری و فروخت کرتی ہے۔ان میں سونے کے ایسے سِکے بھی شامل ہیں جو کہ تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے اس رائل منٹ کمپنی نے خانہ کعبہ کی شبِیہ کندہ سونے کی سلاخ (گولڈ بلین)جاری کیا ہے۔یہ بیس گرام کا گولڈ بلین ہے جس پر خانہ کعبہ کی شبِیہ کندہ ہے اوراس کی قیمت آجکل کے سونے کی قیمت کے حساب سے تقریباً ایک ہزار دو سو ستر برطانوی پاؤنڈ،تقریباً ساڑھے چار لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے،بلین وہ سونا یا چاندی کہلاتا ہے جو کہ کم از کم 99.5% یا 99.9% خالص سونے پر مشتمل ہو، اگر کوئی برطانیہ کی رائل منٹ کمپنی کے جاری کردہ سونے کی سلاخ جس پر خانہ کعبہ کی شبِیہ کندہ ہو یا ایسے سونے و چاندی کے سِکے جس پر خانہ کعبہ کی شبِیہ کندہ ہو، جاری کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کرنے لگے کہ برطانیہ اب اسلامی نظامِ معیشت کا اختیار کرنے لگا ہے اور درہم و دینار کو رائج کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسکو کس چیز سے تعبیر کریں گے؟
اہم بات یہ ہے کہ یہی رائل منٹ ایسے سِکے بھی جاری کرتا ہے جن پر مختلف دیوی دیوتاؤں مثلاً لکشمی، گنیش اور اوم، اہم تاریخی شخصیات مثلاً چین کا مشہور تاریخی جرنل گوان یو (Guan Gong) اور بریتانیا کی شبِیہ کندہ ہو تی ہے، حتیٰ کہ یہی رائل منٹ کمپنی کرسمس کے عنوان سے بھی نقش کندہ سِکے جاری کرتا ہے۔ تو کیا برطانیہ کی رائل منٹ کمپنی کے ہندؤں کے دیوی دیوؤتاں، عیسائیوں کے کرسمس، اور چین کے فوجی جرنل کے نقش کندہ سِکے جاری کرنے سے کوئی یہ تاثر لے گا کہ برطانیہ اب ان اقوامِ عالم کے نظامِ معیشت کا اختیار کررہا ہے؟ یقینا ایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسے نقش کندہ سِکے جاری کرنے کے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ نیز لوگوں کا ان نقش کندہ سِکوں کو خریدنا مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے مثلا کسی تاریخی شخصیت و واقعہ سے اپنی وابستگی کی وجہ سے، شوقیہ عادت کے طور پر، تحفہ تحائف دینے کیلئے یا پھربعض لوگ ان نقش کندہ سِکوں و بسکٹ کو بطور قدر کو محفوظ کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں، اسی طریقے سے امریکہ کی یونائٹیڈ اسٹیٹس منٹ (United States Mint)بھی مختلف نقش کندہ سِکے جاری کرتی ہے جو کہ مختلف دھاتوں مثلاً سونا(Gold)، چاندی(Silver)، پلاٹینیم (Platinum) اور پلاڈیئم (Palladium)کے ہوتے ہیں۔ ان سِکوں پر مختلف تصاویر و خاکے کندہ ہوتے ہیں جنمیں اہم تاریخی شخصیات اور قدیم عمارتوں کی تصاویر و خاکے بھی شامل ہیں، بِعینہ دنیا کے بیشتر ممالک کبھی ٹریژری یا پھر سینٹرل بینک کے توسط سے سِکوں یا بسکٹوں کا اجرا کرتے ہیں، پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی سِکوں کا اجرا کرتا ہے جنہیں یادگاری سِکہ (Commemorative Coins) کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ چاہے کوئی انفرادی مسلمانوں کی سونے و چاندی کے سِکوں کو بیچنے والی کمپنی ہو یا زیورات کی دکان، برطانیہ کی رائل منٹ کمپنی ہو یا امریکہ کی یونائٹیڈ اسٹیٹس منٹ، محض ان لوگوں اور اداروں کا سونے و چاندی کے سِکوں پر مہر نبوت، قرآنی آیات و دینی عبارات، خلفائے راشدین کے نام و دیگر اسلامی تاریخ کی اہم شخصیتوں کے ناموں کو کندہ کر کے ان کی خریدوفروخت سے اسلامی نظامِ معیشت واپس لانے کا تاثر لینا قطعا مناسب نہ ہوگا۔
سونے و چاندی کے سِکوں کا وزن
جہاں تک سونے و چاندی کے سِکوں کے وزن کا تعلق ہے تو حضرت عمرؓ نے درہم (چاندی کے سِکے) اور دینار (سونے کے سِکے)کے لیے وزن متعین فرمادیا تھا، پھر وہی وزن درہم ودینار کے وزن کیلئے معیار بن گیا(حوالہ دارالافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان)۔
جمہور مفتیان کرام کی تحقیق کے مطابق ایک درہم کی مقدارتین اعشاریہ صفرچھ 1 Dirham = 3.0618 grams اور ایک دینار کی مقدار چار اعشارِیہ تین سات چار گرام 1 Dinar = 4.374 grams ہے۔درہم و دینار کی مکمل تحقیق اور مروجہ اوزان اور پیمانوں کے مطابق ان کی تشریح و توضیح کیلئے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒکی کتاب ’’اوزانِ شرعیہ‘‘ دیکھئے۔ اس کے برعکس جب ہم آجکل کے ان جاری کردہ سِکوں کے وزن کو دیکھتے ہیں تو بادی النظر میں وہ جمہور مفتیانِ کرام کے متحقق وزن کے معیار سے میل نہیں کھاتے اور غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سِکوں کے وزن میں عبد الملک بن مروان کے زمانے کے سِکوں کا وزن اختیار کیا گیا ہے جس کا تذکرہ موسوعہ فقہیہ، کویت میں موجود ہے۔ عبد الملک بن مروان کا دینار چار اعشارِیہ دو پانچ گرام 1 Dinar = 4.25 grams سونے کا تھا، اس اعتبار سے درہم دو اعشارِیہ نو ساتھ پانچ گرام 1 Dirham = 2.975 grams چاندی ہوگا۔(۱)
نایاب سِکوں (خاص طور پر اسلامی سِکوں)کی نیلامی امریکہ ، روس و برطانیہ میں ہوتی رہی ہے مثلاً دسمبر ۱۹۹۷ء میں ایسی ہی ایک نیلامی امریکی شہر نیویارک میں وقوع پذیر ہوئی (۲)
اس نیلامی میں خلافتِ بنو امیہ، خلافتِ عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ وغیرہ کے سِکوں کو نیلامی کیلئے پیش کیا گیا۔اس نیلامی کی جو کیٹلاگ (تفصیلی فہرست)ہمیں میسر آئی اس میں ان سِکوں کے اوزان بھی تحریر کئے گئے ہیں جن میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے مثلا کچھ دینار کی اوزان سوا تین گرام سے لے کر ساڑھے چار گرام تک چلے گئے ہیں ۔اسی طریقے سے اسٹیفن البم (Stephen Album)کی اسلامک کوائن کی کیٹلاگ نومبر ۲۰۱۱ء دیکھتے ہیں تو اس میں بھی دینار کے مختلف اوزان تحریر کئے گئے ہیں جو کہ ڈھائی گرام سے لے کر ساڑھے آٹھ گرام تک چلے گئے ہیں ۔(۳)
جو حضرات اسلامی تاریخ پر تحقیق کررہے ہیں اور ان کا خاص موضوع مختلف اسلامی ادوار میں جاری کردہ سِکے ہیں، ان حضرات کیلئے اسٹیفن البم کی یہ کیٹلاگ نِعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوگی کیونکہ اس کیٹلاگ کے اندر اسلامی ادوار میں سِکوں سے متعلق جتنی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہ بہت قابلِ تحسین ہیں۔تین سو صفحات سے زائد اس کیٹلاگ میں بہت ہی تفصیل کے ساتھ اسلامی سِکوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں مختلف دور خلافت میں جاری کردہ سِکوں، ان پر کندہ تحریرات، اوزان، تاریخِ اجرا، ملاوٹ و کھوٹ، مختلف ممالک میں ان کا پھیلا، ان سِکوں کا زوال، کس دھات سے وہ سِکہ بنا ہے (سونا، چاندی، سیسہ(Lead) ، قلع(Tin) ، پیتل(Brass) ، تانبا(Copper) ، گلاس، ڈی بیسڈ چاندی جسے بلن کہا جاتا ہے(Billon) جو کہ دھاتوں کا مرکب ہوتی ہے)، کانٹر مارک وغیرہ جیسی تکنیکی تفصیلات شامل ہیں۔البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کیٹلاگ میں فراہم کردہ سِکوں اور اسلامی تاریخ سے متعلق معلومات کو اصل اسلامی عربی تاریخی مآخذ سے موازنہ کرلیا جائے تاکہ تسلی ہوجائے کہ اس میں فراہم کردہ تکنیکی معلومات درست ہیں۔نیز اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اگر کوئی صاحبِ علم اس کیٹلاگ میں فراہم کردہ معلومات اور امریکہ، برطانیہ (ایش مولین میوزیم، آکسفورڈ میں موجود ہیبرڈین کوائن روم) و دیگر ممالک ، خاص طور پر اسلامی ممالک میں میوزیم میں موجود سِکوں سے بھی موازنہ کرلے۔نیز ایک کتاب مدون کرنے کی ضرورت ہے جس میں تاریخِ امتِ مسلمہ کو معاشی تناظر میں لکھا جائے جس میں مختلف اسلامی خلافتوں مثلاً خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت بنو عباس، خلافتِ عثمانیہ وغیرہ میں رائج معاشی نظام ، خریدوفرخت کے رائج طریقوں اور ان کا ارتقا، ان اسلامی سلطنتوں میں سِکوں کا اجرا وغیرہ جیسے موضوعات کا تفصیلی احاطہ کیا جائے۔ امتِ مسلمہ کی معاشی، معاشرتی، ترقیاتی، اور تمدنی حالات پر ایسی ایک کتاب تحریر کرنے کی ضرورت کا اظہار حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے کتاب تاریخِ امتِ مسلمہ کے مقدمہ میں بھی تحریر فرمایا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ کوئی صاحبِ علم اس کام کا پورا کرنے کا بِیڑا اٹھا لے، آمین نیز جو حضرات سائنسی طور پر اس موضوع پر مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو وہ سائنس کا شعبہ علم سِکہNumismatics میں مہارت حاصل کریں، اس سائنسی شعبے میں سِکے، کرنسی ، ٹوکن، تمغے وغیرہ کو جمع کرنا، ان کی تاریخ اور اس سے متعلقہ علوم کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
سونے و چاندی کے سِکوں کے اجرا کا اختیار اور زر ہونے کیلئے شریعت کی سونے چاندی کے سِکوں کی شرط؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سونے چاندی کے علاوہ بھی کوئی چیز بطور سِکہ استعمال ہوسکتی ہے؟ کیا شریعت نے زر ہونے کیلئے سونے چاندی کے سِکوں کی شرط لگائی ہے؟ اور کیا حکومتِ وقت کے علاوہ بھی کوئی ان سِکوں کا اجرا کرسکتا ہے؟ اس کا جواب مفتیانِ کرام یہ دیتے ہیں کہ شریعت نے کسی چیز کو ثمن قرار دینے پر کوئی قید نہیں لگائی، البتہ ثمنیت متحقق ہونے کیلئے اس چیز کا شرعی طور پر مال ہونا شرط ہے جس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔اس بارے میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم یہ تحریر کرتے ہیں۔
’’حکومت کو مطلقا یہ قدرت ہے کہ جس چیز کو چاہے ثمن قرار دے دے، خواہ وہ پیتل ہو یا لوہا یا چمڑا یا کاغذ اور ان جیسے امور میں شریعت کی جانب سے وسعت، سہولت اور لوگوں کے درمیان جاری عرف و تعامل ہی معہود ہے، نہ یہ کہ ایسی دقیق بحثیں کی جائیں جو کہ موجودہ دور میں فلسفہ نظریہ بن چکے ہیں جن کا روزمرہ کی زندگی میں کوئی اثر نہیں اور نہ ان کا کوئی پتہ ہے۔ (۴)
اسی طریقے سے جامعہ العلوم السلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹان، کراچی، پاکستان کی اس بارے میں رائے درجِ ذیل ہے۔
’’اسلام کے ابتدائی دور میں مالیاتی لین دین اگر چہ سونے چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اور سونے چاندی کے زر ہونے کی صلاحیت مسلمہ حقیقت ہے لیکن شریعت نے زر ہونے کے لیے سونے چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی، مشہور مورخ احمد بن یحییٰ بلاذری نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓنے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر اس خدشے سے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ اس طرح اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ ‘‘
چنانچہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا ہے، تو ان سے کہا گیا: اس سے تو اونٹ ختم ہو جائیں گے ، اس پر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔‘‘ نیز امام مالکؒ منقول ہے: ’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید و فروخت کو رائج کر دیں ، یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کرجائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ادھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔‘‘
’’موجودہ دور میں کسی چیز کی ثمنیت حکومتی قانون کی رو سے عمل میں آتی ہے اور حکومتی اعلان سے ثمنیت ختم ہوجاتی ہے ، عوام کا اس بارے میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہے لیکن سابقہ زمانہ میں عوام کے اتفاق سے ثمن بن جاتا تھا اور عوام کے اتفاق سے ثمن ہونا ختم ہوجاتا تھا،اس بارے میں حکومتی قانون نہیں تھا۔(۵)
اسی تناظر میں ہم دارالافتا ربانیہ کوئٹہ کے فتوی سے اقتباس نقل کرتے ہیں اور اسی سے ملتی جلتی بات ادارہ المعارف کراچی سے چھپنے والی ڈاکٹر مولانا عصمت اللہ صاحب کی کتاب ’’زر کا تحقیقی مطالعہ شرعی نقطہ نظر سے‘‘ ، ص۶۲۔۶۳ میں بھی تحریر ہے۔
’’بین الاقوامی طور پر قانون کی رو سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ سکہ بنانے کا حق صرف اور صرف حکومتِ وقت کو حاصل ہے اس کے علاوہ عوام کو سکہ بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ قانونی طور پر یہ ایک بہت بڑا جرم بھی ہے یہاں تک کہ خلاف ورزی کرنے والے کو بڑی تعزیر کا سزا وار ٹھہرایا جائے گا۔ کیا قانون کے علاوہ شرعی طور پر سکہ بنانے کا حق حکومتِ وقت کے علاوہ کسی فرد اور شخص کو حاصل ہے؟ اس بارے میں شریعت کا بھی حکم یہی ہے کہ سکہ بنانے کا حق حکومتِ وقت ہی کو حاصل ہے اس کے علاوہ اگر کسی فرد اورشخص کو سکہ بنانے کا حق دیا جائے تو علمائے کرام کی تصریحات کی مطابق اس سے ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلے گا بلکہ یہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کی طرف مفضی ہوگا۔
ڈاکٹر عدنان ترکمانی لکھتے ہیں: اور امام مالکؒ نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔ فرمایا: کہ یہ فساد ہے اگرچہ یہ سکہ بنانا حکومت کے سکے کے موافق ہو۔ اور حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حکومت وقت کے علاوہ اگر کسی نے سکہ بنایا تو یہ زمین پر فساد ہوگا۔اما م مالک ؒکی طرح احناف کی بھی رائے ہے لہٰذا سکہ بنانے کا حق جمہور فقہائے کرام کے نزدیک حکومتِ وقت ہی کو حاصل ہے اس کے علاوہ کسی فرد اور جماعت کو اجازت نہیں۔ ‘‘
خلاصہ یہ کہ سونا و چاندی ثمنِ خلقی ہے اور انکی اپنی ذاتی قدر ہے اور قرونِ اولی میں اس کا استعمال کا ثبوت بھی ملتا ہے اور اس سے متعلق فقہائے کرام نے قوانین بھی بڑے واضح انداز میں بیان کئے ہیں لہٰذا اس زر کو اختیار کرنا جو سونے چاندی پر مشتمل ہو اس کو سراہنا چاہیے البتہ اس طرح کے زر کے استعمال کے متعلق شریعتِ مطہرہ نے قوانین واضح کئے ہیں جن کو سامنے رکھ کر اس طرح کے زر کو فروغ دینا چاہیے نیز اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سونے و چاندی کا ذکر قرآن ِ پاک، احادیثِ مبارکہ اور سنت سے ثابت ہے اور زر بھی ہے مگر یہ عقیدہ رکھ لینا کہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی چیز بطور زر استعمال ہی نہیں ہوسکتی، ایسا سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
سونے و چاندی کے عالمی ذخائر اور کاغذی کرنسی
کتنی عجیب بات ہے کہ پوری دنیا کو معاشی طور پر کنٹرول کرنے والوں نے تمام ممالک کو تو کاغذی کرنسی کے پیچھے لگا دیا ہے مگر خود ان کی جان سونے میں اٹکی ہوئی ہے۔یعنی ایک طرف تو یہ سونے کی بطور زر استعمال کی خامیاں گردانتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف فیڈرل ریزرو امریکہ ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ اور آئی ایم ایف نے سونے کے ذخائر کے انبار لگا رکھے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ برطانیہ کے بینک آف انگلینڈ کے پاس والٹس (Vaults)میں ساڑھے پانچ ہزار ٹن (تقریبا پچاس لاکھ کلوگرام) سونے کے بلین موجود ہیں جس کی آجکل کے حساب سے مارکیٹ ویلیو تقریباً ایک سو اسی بلین امریکی ڈالر سے زائد کی ہے اور یہ مقدار پوری دنیا کے سونے کے ذخائر کی پانچ فیصد بنتی ہے جس کی آج تک کان کنی کی گئی ہے۔(۶)
اگر سونے میں بطور زر اتنی ہی خامیاں ہیں تو کیوں فیڈرل ریزرو امریکہ ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ اور آئی ایم ایف ، و دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام سونے کے ذخائر سے نجات حاصل نہیں کرلیتے؟ کیوں خود بھی عملی طور پر سونے سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف کاغذی کرنسی اور اب ڈیجیٹل کرنسی کو بِا لکلِیہ اختیار نہیں کرلیتے؟ کیوں کاغذی کرنسی(اور اب ڈیجیٹل کرنسی کو ترقی پذیر ممالک کو معاشی طور پر کنٹرول کیلئے ) رکھا گیا ہے؟ غرض یہ وہ سوالات ہیں جن کا جاننا اور ان کا سدِ باب کرنا ہمارے مسلمان معاشی ماہرین و محققین کی ذمہ داری ہے۔
آپ کو یہ جان کر بھی حیرانگی ہوگی کہ برطانوی تھنک ٹینک Chatham House(حوالہ: اینڈری آیسترو، گولڈ اینڈ انٹرنیشنل مونیٹری سسٹم، رائل انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل افئیر)کی رپورٹ کے مطابق کسی ملک کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ سونے کو اپنی کرنسی کی پیچھے رکھے اور آئی ایم ایف کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے سونے کے ذخائر کو اس طرح استعمال کرے اور سونے کے بلین کو ایس ڈی آر کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔آئی ایم ایف (حوالہ: آرٹیکلز آف ایگریمنٹ، ص۶،۲۰۲۰)کے معاہدہ کی شق نمبر۴ ، سیکشن ۲یہ کہتی ہے کہ ممبر ممالک سونے کے ماسوا کسی دوسرے ملک کی کرنسی کے ساتھ اپنی ملک کی کرنسی کو منسلک کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی ملک چاہے بھی تو سونے کا بطور زر اختیار کرنا اس کیلئے مشکل ہے کیونکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں نے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں اور ممبر ممالک اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
سونے و چاندی کو بطور زر ختم کرنے کی تاریخی کوششیں
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پہلے عالمی معاشی نظام کو کنٹرول کرنے والوں نے تاریخی طور پر آہستہ آہستہ سونے کی تجارت یعنی حقیقی اثاثوں کی تجارت کو ختم کیا اور اس کے لئے پہلے سونے کی وثیقے جاری کئے، پھر کمرشل بینکوں اور کاغذی کرنسی کا نظام رائج کیا، اور پھر سونے کے ذریعے عالمی تجارت کا اختتام بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement)کے اختتام پر ہوا اور اب یہی عالمی معاشی نظاموں کو کنٹرول کرنے والے پہلے خود ہی کرپٹو کرنسی کے فروغ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں اور قانون سازی میں بھی انکے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہے اور ساتھ ساتھ کرپٹو کرنسی کے نقائص بھی گِردان رہے ہیں تاکہ کرپٹو کرنسی کی مخالفت کرکے عوام الناس میں حکومت کی جاری کردہ کرپٹو کرنسی کی متبادل ڈیجیٹل کرنسی یعنی سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی ڈی بی سی) کو رائج کرنے کیلئے راہیں ہموار کر لی جائیں۔ دراصل ان کا مطمح نظر ایسا کرنے سے بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ کسی بھی وقت وہ کسی بھی ملک کی معیشت پر کنٹرول کرلیں اور قارئین یہ بات یاد رکھیں کہ اس طرح کی ڈیجیٹل کرنسیوں کا شیوع کروایا جارہا ہے جس کے پیچھے کوئی اصل حقیقی اثاثہ نہیں ہے۔اس سی ڈی بی سی کو رائج کرنے کیلئے مختلف ممالک کے پروجیکٹس شروع ہوچکے ہیں جن میں سرفہرست ڈیجیٹل پاؤنڈ، ڈیجیٹل یورو وغیرہ شامل ہیں۔
اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان کے معاشی ماہرین ، پی ایچ ڈی ڈاکٹر حضرات اور حکومتی عہدوں اور کمیٹیوں کی صدارت پر متمکِن صاحبانِ علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ڈیجیٹل کرنسی کے نظام کو رائج ہونے سے پہلے اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر کے اس کے خلاف کمر بستہ ہوں ۔ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حقیقتِ حال اسکے قطعا برعکس ہے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جن حضرات کی یہ ذمہ داری اور انکے فرائِض منصبی میں شامل ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف بند باندھیں، وہی اس ڈیجیٹل کرنسی اور بالخصوص کرپٹو کرنسی کے ذریعے غیر حقیقی معیشت کے نظام کو نافذ کرنے کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔اللہ پاک امتِ مسلمہ کی ہر قسم کے فتنوں سے حفاظت فرمائے آمین۔
عالمی معاشی ماہرین کی آراء اور خاص طور پر کچھ ترقی یافتہ ممالک کے سینٹرل بینکوں کے گورنر حضرات کی تقاریر و تحاریر پڑھ کر یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ یہ لوگ عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے کیلئے ایسے زر کی طرف بلا مبالغہ پیشرفت کررہے ہیں کہ جس زر کی اپنی ذات میں کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ایسا زر کسی حقیقی شئے یا اثاثہ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہورہی کہ قدر کی تعریف ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ صرف تعامل کو ہی قدر کا متبادل سمجھ لیا جائے۔ اس کا جو لازمی نتیجہ سامنے آتا ہے اس کی صورت بڑی بھیانک شکل میں سامنے آرہی ہے مثلاً ایسی چیزوں کو بھی قابلِ قدر سمجھا جارہا ہے جن کو کسی طرح بھی عقلِ سلیم قابلِ قدر تسلیم نہیں کرسکتی مثلا ٹوکن کے عنوان پر حالیہ چھپنے والی ایک کتاب میں ایسی کئی مثالیں دی گئی ہیں جن کی آج کل کے مغربی معاشرے میں قابلِ قدر تصور کرکے اس کی خریدوفروخت کی جارہی ہے یعنی انسانی معاشرے کے زوال کی حد تک گراوٹ اپنی آخری حدود تک پہنچ چکی ہے۔ (۷)
ٹوکن کے عنوان پر چھپنے والی حالیہ کتاب میں کچھ مثالیں دی گئی ہیں (حوالہ کتاب: ٹوکنز: دی فیوچر آف منی ان دا ایج آف دی پلیٹ فارم، ورسو،۲۰۲۳ ) یہ مثالیں دینے کے قابل تو نہیں تھیں مگر بات کی وضاحت کیلئے مجبوری میں دینی پڑیں۔مثلاً اس کتاب میں تحریر ہے کہ انسانی جسم سے خارج ہونے والی ریح کو قابلِ قدر تصور کرکے اس کی خریدوفروخت ہورہی ہے، یہ خریدوفروخت یورپ و امریکا میں شروع ہوچکی ہے اور لوگ اس کی خریدوفروخت کربھی رہے ہیں۔ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر یہ چیزیں رائج ہوگئیں اور انسانی جسم سے خارج ہونے والی ریح کا عمومی خریدوفروخت ہونا شروع ہوگیا تو کیا اس کی خریدوفروخت کا بھی جواز نکل آئے گا جیسا کہ کرپٹو کرنسی کا جواز نکالا گیا ہے کہ یہ رائج ہونے لگی ہے؟ دیکھئے! جس طریقے سے یہ بیہودہ چیزیں سائنسی طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اسی طریقے سے کرپٹو کرنسی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی جن بیہودہ چیزوں کی خریدوفروخت کی جارہی ہے ان چیزوں کی عرف، فطرتِ سلیمہ اور طبیعتِ سلیمہ کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں ہے، اسی طریقے سے سائنسی اعتبار سے کرپٹو کرنسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ ایک تصوراتی، تخیلاتی اور فرض کی ہوئی چیز ہے جس کا ڈیجیٹل وجود تک نہیں ہے۔کرپٹو کرنسی پیٹنٹ یعنی انٹیلیکچول پراپرٹی کی طرح نہیں ہے اور اسے بجلی، حقوق گڈول، حقوقِ مجردہ، کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، یا برانڈ کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا اور جو لوگ کرپٹو کرنسی کو بجلی، حقوق گڈول، حقوقِ مجردہ، کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، یا برانڈ پر قیاس کررہے ہیں وہ سائنسی طور پر سراسر غلط ہیں۔
مدارسِ دینیہ اور سونے و چاندی کے سِکوں کی خریدوفروخت کے مسائل کی تدریس
مدارسِ دینیہ کے نصاب میں سونے چاندی کے سِکوں یعنی درہم و دینار سے متعلق مسائل بہت وضاحت کے ساتھ درج ہیں۔ آپ ان کتب میں پورے پورے ابواب سونے چاندی کے سِکوں سے متعلقہ معاملات کے مل جائیں گے۔ ان کتابوں میں القدوری، کنز الدقائق اور ہدایہ سرفہرست ہیں نیز کتب احادیث و تاریخ و سیر میں بھی سونے چاندی کے سِکوں سے متعلق ابواب مل جائیں گے لہٰذا ان سونے چاندی کے سِکوں کو بطور زر استعمال کرنا ایک اچھی بات ہوگی کیونکہ یہ حقیقی معیشت کو اختیار کرنے کی طرف ایک قدم ہوگا البتہ ان سونے چاندی کے سِکوں سے متعلق اتنا غلو اختیار کرلینا کہ سونے چاندی کے علاوہ کسی کو بھی زر نہ سمجھنا یہ شریعتِ اسلامی کی تعلیمات کی کم فہمی ہی ہوسکتی ہے نیز سونے چاندی کے سِکوں یعنی درہم و دینار کا اجرا اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی پالیسی مرتب کریں کہ حقیقی زر مثلاً سونے چاندی کے سِکوں کو معاشرے میں رواج دیا جاسکے اور اس کیلئے وہ مستند دارالافتا سے رہمنائی حاصل کرسکتے ہیںنیز آجکل کے دور میں ان سونے چاندی کے سِکوں یعنی درہم و دینار کو بطور زر اختیار کرنا اتنا آسان نہ ہوگا کیونکہ عالمی معاشی طاقتوں سے ٹکر لینا پڑے گی لہٰذا جوشِ جذبات میں آئے بغیر پہلے ملکی معیشت کو قرضوں سے نجات دلانا پڑیگی اور ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو مضبوط کرتے ہوئے خود انحصاری کی راہ کی طرف گامزن ہونا پڑیگا اور پھر باقاعدہ ایک مربوط پلاننک کرکے حقیقی اثاثوں کی معیشت کو مفتیانِ کرام سے پوچھ پوچھ کر فروغ دینا ہوگا۔
درہم و دینار کے نظام کو لوٹانے سے متعلق سوچ و فکر میں اِفراط و تفرِیط
درہم و دینار کے نظام کو لوٹانے والے حضرات کی سوچ وفکر میں اِفراط و تفرِیط پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ حضرات ہیں جو صرف سونے و چاندی کے سِکوں کو اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادی اساس قرار دیتے ہیں اور مروجہ کاغذی کرنسی کو نظامِ باطل گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ حضرات ہیںجو سونے و چاندی کے سِکوں کو اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادی اساس قرار نہیں دیتے اور مروجہ کاغذی کرنسی کے نقائص گردانتے ہیں البتہ یہی حضرات محض فرضی نمبروں یعنی کرپٹو کرنسی کو بطور زر اختیار کرنے کی امتِ مسلمہ کو ترغیب دیتے نہیں تھکتے۔تیسری طرف وہ لوگ ہیں جو کہ سونے کو محض سونا ہونے کی وجہ سے کرنسی نہیں مانتے بلکہ سونے کی وہ صفات جسکی وجہ سے سونے کو بطور آلہ مبادلہ معاشرے میں تسلیم کیا گیا، ان وجوہات کی بنا پر سونے کو زر تسلیم کرتے ہیں اور پھر وہ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ جس چیز میں بھی یہ ’’صفات‘‘ ہوں گی وہ بطور کرنسی استعمال ہوسکتی ہے اور پھر اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ڈیجیٹل کرنسی یا کرپٹو کرنسی کو کرنسی تسلیم کروانے پر اپنی ساری صلاحیتیں صرف کررہے ہیں جبکہ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی یا کرپٹو کرنسی میں سونے کی صفات آہی نہیں سکتیں کیونکہ سونے میں اللہ رب العزت نے اپنی ذاتی قدر رکھی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی کی اپنی کوئی ذاتی قدر نہیں ہے۔
ایک طرف تو سونے و چاندی کے سِکوں کو لوٹانے والے یہ کہتے ہیں کہ لوگ ان سِکوں کو بطور زر استعمال کرسکتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لیگل ٹینڈر نہیں اور دراصل یہ یادگاری سِکہ ہیں کہ کہیں ان کی قانونی پکڑ نہ ہوجائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ان سونے و چاندی کے سِکوں کو خریدنے پر صارفین کو کیپیٹل گین ٹیکس (Capital Gain Tax) (CGT)دینا پڑے گا جو کہ عمومی طور پر اثاثوں کی فروخت پر دینا پڑتا ہے۔غرض اپنے آپ کو قانونی طور پر بچاتے ہوئے ان جاری کردہ یادگاری سِکوں کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے۔ (جاری ہے)