شام میں ظالم بشار الاسد خاندان کا نصف صدی پر محیط اقتدارکا خاتمہ

مولانا راشد الحق سمیع

مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’الحق‘‘

بلاد شام پر طویل عرصے سے اسد خاندان کی مسلط کردہ ظلم و بربریت کی سیاہ شام بالآخر۱۶؍دسمبر کو صبح امید اور سحرِ نوید افزاء ثابت ہوئی اور عالم اسلام کے لئے فتح دمشق کا دن عرصہ دراز کے بعد فتح مبین ثابت ہوا۔اہلِ فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم اور وہاں کی انتہائی کربناک صورتحال سے عالم اسلام کے زخم زخم قلب و جگر کیلئے اکثریتی عوام کااقتدار سنبھالنا باعث اطمینان وفرحت ثابت ہوا، اللہ تعالیٰ ہمیں القدس کی مکمل آزادی اور وہاں پر مظلوم مسلمانوں کی فتحیابی بھی دکھائے۔(آمین)
سرزمین انبیاء ارض شام پر نصف صدی سے مسلط کردہ کمیونزم اور اسدی خاندانی ’’بادشاہت‘‘ کا بھاری قفل مجاہدین اسلام کے نعرہائے تکبیر اور جہد مسلسل سے بالآخر چکنا چور ہو گیا۔ آج سے تقریباً ۵۳ برس قبل حافظ الاسد بدبخت ڈکٹیٹر نے اس ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تھااور پورے ملک کو اس نے دنیا کی ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا تھا۔ان ۵۳ برسوں میں اس کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں مگر اس ظالم اوراس کے بیٹے نے ان تحریکوں کو آگ و خون کے ذریعے دبا دیا تھا، پھر کچھ عرصہ قبل عرب بہار(عرب انقلاب)کی عوامی جدوجہد کے نتیجے میں تیونس،لیبیا ،مصر اور شام میں عوام نے احتجاج شروع کیا تو بشار الاسد نے اپنی عوام پر دیگر دوست ممالک اور ظالم روس کے ہمراہ ایسی خطرناک فوجی مہم چلائی کہ آدھے سے زیادہ ملک کو کھنڈر بنادیا، اپنے لاکھوں شہریوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور لاکھوں کو شہید کردیا اور بے شمار کو پابند سلاسل کیا۔ موجودہ عہد میں اپنے ہم وطنوں کے خلاف اس کے ظالمانہ منفی اقدامات کی نظیرنہیں ملتی ۔
راقم نے ماہنامہ ’’الحق‘‘ میں اس سفاک کمیونسٹ بشار الاسد کے مظالم کے خلاف وقتاً فوقتاً ادریئے و تجزیئے لکھے۔سن ۲۰۰۰ء میں اس کے اقتدار میں آمد کے موقع پر بھی میں نے ایک اداریہ لکھا تھا اور اسی طرح ’’عرب بہارانقلاب ‘‘کے موقع پر بھی میں نے اپنی معروضات اور چند تجزیئے لکھے تھے ۔ آج الحمدللہ فتح دمشق کے موقع پر امت مسلمہ کے دلوں کی طرح میرا دل بھی باغ باغ ہو گیا ہے اور اپنی وہ پرانی تحریریں یاد آگئیں جس میں میں نے اس کے مظالم اور اس کی فاشسٹ حکومت کے سیاہ کارناموں کے متعلق لکھا تھا اوراس کے مظالم کی سیاہ شام کو نوید صبح میں بدلنے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’بشار الاسد حکومت کو لیبیا، مصر اور یمن کے حکمرانوں کے انجام سے سبق لینا چاہیے کیونکہ عوامی جدوجہد کے سمندر میں جب ایک بار طغیانی پیدا ہوجائے تواس کے سامنے بڑے بڑے دیوہیکل جہازنما قصرِ صدارت اوراس کے بونے حکمران کہاں ٹِک سکتے ہیں،ان شاء اللہ! وہ دن دور نہیں جب دمشق کی مقدس فضائوں میں آمریت کی زہریلی ہوائیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیں گی اوروہاں کے معصوم اور بہادر عرب مسلمان جمہوری طریقوں سے ایک خالص جدید اسلامی حکومت دیگر ہمسایہ ممالک کی

طرح قائم و دائم کرلیں گے۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

‘‘
۱۹۹۷ء میں راقم نے ’’جامعۃ الازہر‘‘مصر سے دوران طالب علمی شام کا سفر کیا،دراصل یہ سفر ’’فتوح الشام‘‘کے مطالعہ کے ذوق و شوق کا ہی نتیجہ تھا ۔ جب میں اردن سے بائی روڈ شام کی حدود میں داخل ہوا تو شامی بارڈر پر حافظ الاسد کے فوجیوں نے میرا پاسپورٹ اور حلیہ دیکھ کر مجھے کافی پریشان کیا اور بلاوجہ روکے رکھا۔ سنیوں کے لئے ان کی نفرت بھری اور ہتک آمیز رویہ میرے لئے انتہائی حیرت کا باعث تھا۔ چند دن دمشق میں گزارے اور تاریخی شہروں حلب و حمص میں بھی جانے کا اتفاق ہوا مگر پورے شام میں لوگوں میں خوف و ہراس چھایا ہوا تھا اور لوگ حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہونے سے ڈرتے تھے۔ ظالم بشار کا عہد تو اس کے باپ سے بھی بدتر تھا ،اس نے چنگیز خان اور شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر صدر کم جونگ اون کے ریکارڈ بھی اپنی بربریت اور سفاکیت کی وجہ سے توڑ دئیے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس فرعون اور ظالم ڈکٹیٹر سے شامی عوام کو نجات ملی اور طویل شام کی بالآخر صبح ہوگئی۔