منصب قا ضی القضاۃ(چیف جسٹس) کا تحقیقی جائزہ
مفتی عبداللہ فردوس
رئیس دارالافتاء جامعہ الفلاح بخشالی مردان
اسلامی تہذیب کے قابلِ فخرموضوعات میں سے ایک موضوع قاضی القضاۃ ہے ،عوام اور خواص سب اس روشنی کے محتاج ہیں،ہم فطری طورپر بڑوں کے لیے عمدہ باوقار،باعزت اورجامع الفاظ استعمال کرتے ہیں،ملائکہ ،نبی ،رسول ،خلیفہ ،قاضی،یاقاضی القضاۃ یہ سب کلمات تعظیم وتبجیل ہیں، ان القابات سے ان حضرات کوذرہ برابربڑائی وتکبرکاخیال بھی پیدانہیں ہوتاہے۔ہاں! دور حاضرمیں ہم ان القابات سے مانوس ضرورہیں لیکن ان کامفہوم محدودہیں۔ صرف قاضی کوقاضی نکاح تک محدود رکھا گیا اورقاضی شرعی سے ہم نامانوس ہیں نیز پہلی اوردوسری صدی کے اوائل میں عہدِ خلفائے راشدین اوربنوامیہ کے دورمیں لوگ قاضی القضاۃ کے نام سے بالکل نامانوس تھے۔
اسلامی حکومت کے ڈیڑھ سوسال بعد ایک نئی اصطلاح’’قاضی القضاۃ ‘‘سامنے کیوں آئی؟
انتہائی بحث و جستجو کے بعد اب تک اس کی وضاحت نہیں ملی کیونکہ زمانہ نبوت کے بعدخلفائے راشدینؓ سن چالیس ہجری تک اور بنوامیہ ۴۱تا۱۳۲ ہجری تک تقریباًبانوے سال قائم رہی، اس زمانے میں اس کا سراغ نہیں ملتا، خلافت اموی کے بعدایک سوبتیس ہجری میں دولت عباسیہ قائم ہوئی اور تقریباً چارسوپچیس سال رہی،یعنی ۱۳۲تا۶۵۶تک پھراچانک بنو عباس ہی کے زمانے میں پہلی دفعہ شہر بغداد میں قاضی القضاۃ کا عہدہ نظر آتا ہے۔
امام ابویوسفؒ تین خلفاکے زمانے میں قاضی رہا،خلیفہ مہدی نے ۱۶۲ھ میں قاضی ابوبکربن عبداللہؒ کے وفات کے بعدامام ابویوسف قاضی کے عہدہ پرمقررکیا،مہدی کے بعداس کے جانشین ہادی نے بھی اسی عہدہ پربحال رکھاپھرخلیفہ ہارون الرشید نے آپ کی لیاقت واہلیت کودیکھ کرتمام قاضیوں کاسربراہ اوربلادِاسلامی کاقاضی القضاۃ لقب دیا،یہ وہ عہدہ تھاجوتاریخ اسلام میں اب تک کسی کونصیب نہیں ہواتھا۔علامہ خطیب بغدادیؒ (المتوفی ۴۶۳ھ) نے آپ کے تذکرہ میں لکھاہے۔
وھواول من دعی بقاضی القضاۃ فی الاسلام ۔
’’آپ اسلام میں پہلاشخص ہے جوقاضی القضاۃ سے پکاراگیا۔‘‘
علامہ ابن تیمیہؒ نے لکھاہے کہ : وہو أجل أصحاب بی حنیف وول من لقب قاضی القضاۃ۔
امام ابویوسفؒ ،امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ جلیل القدرہے اورآپ پہلے شخص ہیں جوقاضی القضاۃ سے ملقب ہوئے۔علامہ ابن کثیرؒ(المتوفی ۷۷۴ھ) کی بھی یہی رائے ہے:
وہو أول من لقب قاضی القضاۃ ، وان یقال لہ: قاضی قضاۃ الدنیا، لکنہ ان یستنیب فی سائر الاقالیم التی یحکم فیہا الخلیفۃ
’’امام ابویوسفؒ پہلے شخص ہیں جن کوقاضی القضاۃ کالقب دیاگیااوراس کوقاضی الدنیابھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیامیں جہاں جہاں خلیفہ کاحکم چلتاتھا،وہاں وہاں عہدہ قضاکی نیابت آپ ہی کوسپردتھی۔قاضی ابن خلکان فرماتے ہیں: امام ابویوسف پہلے شخص تھے جن کوقاضی القضاۃ کاخطاب دیاگیاتھا۔ابن عمادحنبلیؒ فرماتے ہیں کہ علامہ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ اپنے زمانہ میں مشرق ومغرب میں ابویوسف پہلے شخص تھے جن کوقاضی القضاۃ کالقب دیاگیاتھا۔
القابات جوبھی ہوں کام اپنانام خودمتعین کراتاہے۔یہ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ موصوف ان القابات کے حق دارتھے اورنمایاں طورپریہ صفات ان میں موجودتھے۔
ایک مصری عالم ابن طرطوس ’’القضاۃفی الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں : کہ یہ اصطلاح ایرانیوں سے لی گئی ہیں کیونکہ ایرانیوں میں قاضی القضاۃ ہوا کرتے تھے جو موبذموبذان کا ترجمہ ہے جوعلامہ جاحظ (المتوفی ۲۵۵)نے ا لتاج فی أخلاق الملوک میں کیاہے۔
لما مات موبذان موبذ، وصف لہ رجل من ورصطخر، یصلح لقضأ القضاۃ فی العلم والتلہ والمان یہ اصطلاح اصل میں ابو جعفر منصورمحمدبن عبداللہ (المتوفی۱۵۸ھ) جو بنو عباس کے مطلق العنان فرمان رواخلیفہ تھے،اس نے امام اعظم ابو حنیفہؒ کو قابو میں رکھنے کے لیے پیش کیا تا کہ اِمام کو ممنون ِکرم بنانے میں حکومت چلانے میں رکاوٹ نہ بنے۔یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب خلفاء اورحکام اپنی مرضی کے مطابق قاضیوں کوحکم جاری کرنے پرمجبور کرتے تھے اوراسی سے قضاکاتقدس آلودہ ہونے کی کوشش شروع ہوئی۔ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کی چار خلافتیں گزری ہیں۔بنو امیہ اور بنوعباس مشرق میں۔خلافت ہسپانیہ مغرب میں اور خلافت عثمانیہ مشرق ومغرب کے سنگم پر۔
عباسیوں میں صرف تین خلفاء یعنی ابوالعباس ،مہدی اور امین آزاد ماں کے بیٹے تھے۔ منصور کی ماں بربر کنیز تھی، اسی طرح مامون کی ماں ایرانی ،مہدی اور واثق کی مائیں یونانی اور مقتدر کی ماں ترکی کنیزیں تھیں،ماں چاہے آزاد ہو یا کنیز، بچوں کے حقوق برابر ہوتے تھے۔ اسی لیے آزاد عورتوں کی اولاد اور لونڈیوں کی اولاد میں تنافس اور آویزش ہوتی رہتی تھی،جیسا کہ ہارون کے لڑکوں امین اور مامون کے درمیان ہوا۔ الامام القاضی ابویوسفؒ کی ولادت ۱۱۳اوروفات۱۸۲ھ میں ہوئی کل عمر۶۹سال تھا،ان کی کنیت ابویوسف ہے، نام یعقوب بن ابراہیم بن حبیب انصاری، کوفی بغدادی ہیں، امام ابوحنیفہ کے اجل تلامذہ میں سے ہیں۔ سترہ سال اپنے استادامام ابوحنیفہؒ کیساتھ رہیںاور سب سے پہلے امام ابوحنیفہؒ کے مذہب اور مسلک کو پھیلانے والے ہیں اورخیرخلف لخیرسلف کامصداق تھے۔ فقیہ بھی ہیں اور حفاظ حدیث میں سے بھی تھے اور بادشاہ ہارون رشید اور ان کے بیٹے کے زمانہ میں قاضی القضاۃ رہیں۔
اسلامی قانون سازی میں امام ابو حنیفہ کا اسلوب
امام اعظم ابو حنیفہؒ عالم اسلام کے ایک عظیم علمی شخصیت تھے،ان کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے، امام صاحب کی شخصیت کے بیسیوں پہلو ہیں۔ میں اپنے ذوق کے مطابق ایک آدھ پہلو پر کچھ لکھناچاہتاہوں لیکن تفصیلات میں جائے بغیرآپ کی خدمت میں دو سوالات پیش کرتاہوں۔(۱) یہ عہدہ کیوں وجودمیں آیا؟ (۲) امام ابو یوسفؒ نے قاضی القضاۃ کا منصب کیوں قبول کیا؟
یہ عہدہ کیوں وجود میں آیا؟
جب بنو عباس کا دور آیا تو مقامی قضا پھرصوبوں کی قضاء کے بعدسارے ممالک محروسہ کی قضاء وعدالت کے کلی اختیارات کامسئلہ امام اورحکومت کے درمیان چھڑاگیا،حکومت نے امام کو قابومیں لانے کیلئے اسی آخری لقمہ کوپیش کیالیکن امام اس پرراضی نہ ہوئے۔قاضی کایاقاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کر کے اپنے سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ،اس دورمیں قاضی ابن ابی لیلیؒ اورقاضی ابن شبرمہؒ جیسے بزرگ فقہاء بھی تھے لیکن نگاہ امام ابوحنیفہؒ پرٹھہری اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات بنوامیہ کے دورسے قاضی اورسرکاری ملازم چلے آرہے تھے، اصل بات یہ نہیں تھی کہ قضاء کے عہدے پر ایک عادل آدمی بیٹھے بلکہ حاکم کا اصل منشا یہ تھا کہ ایک صاحبِ علم آدمی جس کی بات دنیا مانتی ہے وہ ہمارے سسٹم کا حصہ بن جائے اور ہماری قوت میں اضافہ کرے، چنانچہ امام صاحب نے انکار کر دیا، اس پر مکالمہ بھی ہوا اور دونوں طرف سے قسمیں بھی اٹھائی گئیں پھر امام صاحب کے انکار پر انہیں جیل بھیج دیا گیا، امام صاحب نے جیل قبول کر لی لیکن ظلم کے نظام کا حصہ نہیں بنے۔
بلخ کے مشہور امام خلف بن ایوب بلخیؒ (المتوفی ۲۱۵ھ) فرماتے ہیں کہ:امام اعظم ابوحنیفہ کے خصائل وعادات میں مجھے دو باتیں زیادہ پسند آئیں : ٭ قضا کو قبول نہ کرنا حالانکہ انہیں طرح طرح کی ترغیبیں بھی دی گئی اوردھمکیوں سے بھی ڈرائے گئے مار بھی کھائی ۔ ٭ قرآن کی تفسیر میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔
امام ابو یوسفؒ نے قاضی القضاۃ کا منصب کیوں قبول کیا؟
یہ تاریخ کا ایک اہم سوال ہے کہ امام ابو حنیفہ نے قاضی القضاۃ (جیسے آج رئیس مجلس القضاۃ الاعلی کہا جاتا ہے ) کا منصب قبول نہیں کیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا،یعنی انہوں نے چیف جسٹس کا منصب قبول نہیں کیا لیکن جیل قبول کر لی تھی اور پھر جیل کے اندر آپکو زہر پلایا گیا جسکے نتیجے میں آپکی شہادت واقع ہوئی لیکن بعد میں ان کی مسند پر بیٹھنے والے انکے جانشین حضرت امام ابویوسف ؒنے یہ منصب قبول کر لیااور قاضی القضاۃ بن گئے ۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ تاریخ کا ایک اہم معمہ ہے۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس وقت امام ابو حنیفہؒ نے علمی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت کا ماحول کیا تھا؟امام صاحب نے جب یہ منظر دیکھا کہ جس نہج پر اسلامی حکومت کا نظام آگے بڑھ رہا ہے اس صورتِ حال میں دو بنیادی کام ضروری ہیں(۱) اسلامی قانون سازی (۲) حکومتی مناصب کیلئے افراد سازی۔
اسلامی قانون سازی
امام صاحب نے یہ بھانپ لیا کہ ان کاموں کے لیے حکومت سے لا تعلق رہنا ضروری ہے کیوں کہ سرکاری سطح پر تو وہی کچھ ہونا ہے جو سرکار کے لیے قابل قبول ہو، اس لیے امام صاحب نے شریعت کو باقاعدہ منظم قانون اور ایک مربوط دستور کی شکل دینے کے لیے ایک پرائیویٹ اور نجی ادارہ قائم کرلیا تاکہ اسلامی قانون سازی دفعہ وار اور نظم و ترتیب کے ساتھ سامنے آجائے اور اس طرح اسلامی قانون کو ایک علمی حصار ملے۔حضرت امام ابو حنیفہؒ نے قانون سازی کا ذوق پیدا کیا اور قانون سازی کیلئے افراد جمع کیے۔ مجلس کے چالیس علماء و ماہرین کا کیا ہوا کام دنیا بھر میں اسلامی قانون سازی کی بنیاد ہے، دنیائے اسلام میں قانون سازی کا پہلا مربوط کام امام ابوحنیفہؒ اور ان کی جماعت نے کیا،آج کی علمی دنیا میں ایک بڑا سوال ہے کہ اسلامی ریاست میں قانون سازی جائز ہے یا نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قانون سازی تو سب سے پہلے امام اعظم ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں نے کی ہے اورباقاعدہ مجلس قائم کر کے اسی ہزار سے زیادہ دفعات پر مشتمل ایک قانونی ذخیرہ امت کو دیا ہے لیکن اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا دستور کس نے لکھا ؟ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی درخواست پر امام ابو یوسفؒ نے لکھا ،جو کہ امام ابو حنیفہؒ کے جانشین تھے۔
حکومتی مناصب کے لیے افراد سازی
امام صاحب نے دوسرا کام افراد سازی کاکیا، میں اس کے لیے کسی لمبی بات کے بجائے ایک حوالہ پیش کرنا مناسب سمجھتاہوں، جب امام صاحب کا علمی کام تکمیل کے مرحلے کو پہنچا تو امام صاحب نے کوفہ کی جامع مسجد میں ایک اجتماع منعقد کیا، روایت ہے کہ ایک ہزار کے قریب علماء اس اجتماع میں جمع ہوئیںجن سے امام صاحب نے خطاب فرمایا اور یہ امام صاحب کے شاگرد تھے۔ اِس خطاب کے کچھ حصے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنی کتاب امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی میں نقل کیے ہیں، امام صاحب نے اپنے شاگرد وں سے خطاب کیا کہ میں نے تم لوگوں کو پڑھایا ہے اور تمہیں تیار کیا ہے۔ تم میں سے چالیس تو وہ ہیں جو قاضی بننے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان میں سے دس وہ ہیں جو قاضیوں کی تربیت و نگرانی کی اہلیت بھی رکھتے ہیں تاکہ حکومتی مناصب پر جو لوگ فائز ہوں وہ اہلیت کے حامل ہوں۔ اب میں تمہیں امت کے حوالے کر رہا ہوںیعنی آئندہ اگر قاضیوں کی ضرورت ہوئی تو یہ دس آدمی میرے والا کام کریں گے۔ امام صاحب ؒ خود قاضی نہ بنے کہ اس اہم کام کے لیے حکومتی اثر سے الگ رہنا ضروری تھا لیکن شاگردوں کی ایک بڑی تعداد کو قضاء کے لیے تیار کیا۔امام صاحب نے صرف صحیح اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ امام صاحب نے یہ جانچ لیا کہ جب تک اسلامی قانون ایک مدون شکل میں موجود نہ ہو اور جب تک قانون کو سمجھنے والے اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے قاضی موجود نہ ہوں اس وقت تک بات آگے نہیں بڑھے گی۔ گویا امام صاحب نے اپنے وقت میں امت کی علمی و افرادی ضرورت کوپورا کیا اور دنیا کو دو عظیم تحفے دے کر دنیا سے تشریف لے گئے۔ ایک قانون اور دوسرا قانون چلانے والے لوگ۔
خلیفہ ابو جعفر منصور کے دور میں قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)اور وزیر خزانہ نہ بننے کی پاداش میں امام ابو حنیفہؒ کو قید کیا گیا اور مجموعی طور پر ایک سو پچاس کوڑے ان کے ننگے بدن پر برسائے گئے اور پورے چار سال قید و بند کی صعوبت انہوں نے اٹھائی، بالآخر جیل خانہ ہی میں ان کے منہ میں زبردستی زہر کا پیالہ انڈیل دیا گیا اور سجدہ کی حالت ہی میں انہوں نے ستر سال کی عمر میں اپنی عزیز جان جانِ آفریں کے سپرد کی فرحمہ اﷲتعالی رحمۃ واسعۃ (آمین)
امام صاحب کی شہادت کے بعد واقعات جس رنگ میں پیش آئے وہ درج ذیل ہے:
اب امام اعظمؒ کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسفؒ عباسی حکومت کے پہلے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے، امام صاحبؒ نے امام ابو یوسفؒ اورامام زفربن ہذیلؒ کے بارے میں تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ یہ دو آدمی صرف قاضی ہی نہیں بن سکتے بلکہ قاضیوں اور مفتیوں کی تربیت و تادیب کا کام بھی کر سکتے ہیں ،امام زفر ؒنے بالکلیہ انکار کر دیا اگرچہ اس کا گھر اس کی وجہ سے گرا دیا گیالیکن امام ابو یوسفؒ نے قاضی القضاہ کی عہدہ کو قبول کر دیا ۔اب یہ وقت تھا کہ امام ابویوسفؒ قاضی القضاۃ کا منصب قبول کر لیتے۔ تاریخ کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے تو قاضی القضاۃ کا منصب قبول نہیں کیا لیکن ان کے شاگرد اور جانشین امام ابو یوسف نے کیوں قبول کر لیا آخر کیوں؟ابو جعفرمنصور (المتوفی ۱۶۸ھ) کے بعد تین خلفا-مہدی (المتوفی(۱۶۹ھ)،ہادی (۱۷۰ھ)اورہارون الرشید (المتوفی۱۹۳ھ) اورپھرخلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں آپ کوقاضی القضاہ بنایا گیا۔امام ابویوسفؒ دین کی تائیداورنصرت کے لحاظ سے چنداعجازی ہستیوں میں سے ہیں۔اوراسی عہدہ قضا کی منصب پر وفات پا گئے
قاضی القضاہ کا تصور ابو جعفر منصور کے دور میں پیدا ہوااور ہارون الرشید ہی کے دور میں قائم ہوا، نہ أول من جمع بین العلمِ والعملِ فی المسائلِ القضائیِ۔ علی بن صالح جب امام ابویوسفؒ سے حدیث بیان کرتے توفرماتے: حدثنی فقیہ الفقہاء وقاضی القضاۃ وسیدالعلماء أبویوسف۔
امام ابویوسفؒ اپنی علمی حیثیت کا احساس رکھتے تھے اور علم کو ذلیل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک خاص موقع پر ہارون الرشید نے ان سے کہا۔ تدر مع من نت؟ تمہیں پتاہے تم کس کے ساتھ ہو؟ مقصد اپنے منصبِ خلافت پرفخر تھا۔امام ابویوسفؒ نے برجستہ جواب دیا۔ آپ کو پتا ہے آپ کس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں؟ ہارون الرشید نے کہا: ہاں! ابویوسفؒ کے ساتھ۔امام ابو یوسفؒ نے کہا: ہاں! آپ کو اگر اپنے نسب پرفخر ہے کہ ہاشمی ہیں تو ہزاروں لوگ آپ کی طرح ہاشمی النسب موجود ہیں اور میں اپنے علم کے اعتبار سے دنیا میں اپنے وقت کا تنہا فرد ہوں، خلیفہ نے کہا کاش کہ میں خلیفہ نہ ہوتا ایک قلی ہوتا لیکن میرے پاس علم کی دولت ہوتی۔
قاضی ابو یوسف کے انتقال کے بعدقاضی القضاۃ کے عہدہ کے لئے قاضی وھب بن وھب القریشیؒ (المتوفی ۲۰۰ھ) جو ابو البختری کے نام سے مشہور ہے مقررہوئے۔ یہ ایک غیر حنفی عالِم تھا، جس کی وجہ سے خلیفہ ہارون الرشید نے امام محمدؒ کے منہ پردوات ماری جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیایہ واقعہ ۱۸۴ھ کا ہے۔ اس وقت امام محمد رقہ کے قاضی تھے لیکن پھر امام محمدؒ سے قرب حاصل کرکے ان کو قاضی القضاۃ کا عہدہ سپرد کیالیکن امام محمد کی حیات کا پیالہ لبریز ہوگیااور رئے شہر میں ۵۸سال کی عمر میں بمطابق ۱۸۹ھ انتقال کیا،ہارون الرشید کے وفات کے بعد مامون الرشید کے عہد کے قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم مقرر ہو ئے،مامون کے بعد معتصم ،متوکل اورواثق بلکہ عباسیوں کی حکومت میں شہنشائیت تک قضا کا عہدہ آن بان سے تر وتازہ رہا ۔
خلافتہ عباسیہ کے ۳۷خلفا۵۳۰سال میں گزریں جن کی ابتدا ۱۳۲ھ میں ابوالعباس سفاح (المتوفی ۱۳۶ھ) کے ہاتھ پر بیعت سے ہوئی۔امت کی گزشتہ تاریخ میں کبھی اتنے کم عمرنوجوان کوعالم اسلام کی قیادت نصیب نہیں ہوئی اور مستعصم باللہ عبداللہ بن منصورالمستنصرعباسی خلفاء کاآخری چشم چراغ تھا جوتاتاریوں کے ہاتھ ۶۵۶ھ میں قتل ہوا ۔سوا پانچ سوسال میں قاضی یا قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہونے والے عموماً حنفی مسلک کے پابند فقہا تھے۔
امام صاحب ؒنے قاضی القضاۃ کا منصب قبول نہیں کیا لیکن امام ابو یوسف کے زمانے میں یہ دو بنیادیں موجود تھیں، ایک مدون قانون اوردوسرا قانون کو چلانے والے افراد، سارا اِنتظام مکمل تھا اس لیے انہوں نے قاضی القضاۃ کا منصب قبول کیااور اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ موقع دیا اور انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کے تیار کیے ہوئے قانون اور افراد کو ایسے استعمال کیا کہ پھر فقہ حنفی آئندہ صدیوں میں عباسیوں کے قانون کی بنیاد رہی اور اس کے بعد عثمانیوں اور مغلوں کے قانون کی بنیاد بھی بنی۔
نتیجہ
امام ابو یوسفؒکا عہدہ قضا قبول کرنے کی وجوہات او رثمرات
(۱) امام اعظم ابوحنیفہؒ کی علمی و انقلابی جدو جہد کی تکمیل ۔
(۲) اسلامی احکام و قوانین عدالتوں میں رائج کرنا ۔
(۳) معتزلہ ،زنادقہ اور دیگر گمراہ فرقوں کا زور توڑنا ۔
(۴) عدلیہ کے راستے نفاذ دین کی خدمت انجام دینا ۔
(۵) فقہ اسلامی کو زمینی حقائق پر منطبق کرنا ۔