دو روزہ قومی کانفرنس کی مختصر روداد

بعنوان مسلح تصادم میں شہریوں کا تحفظ :اسلامی نقطہ نظر اور عدلیہ کا کردار

مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی
نائب مدیرماہنامہ ’’الحق‘‘

۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۴ کو محترم جناب ثاقب جواد صاحب کا فون آیا اور کہا کہ آپ کا نمبر ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی صاحب نے دیا ہے ۲۰۔۲۱ نومبر کو فیڈرل جوڈیشنل اکیڈمی اسلام آباد میںآئی سی آر سی کے اشتراک سے دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے، واٹساپ پر موضوعات بھیج رہا ہوں کسی ایک موضوع پر خلاصہ تحریر کرکے ای میل پر بھیج دیں، تھوڑی دیر میں انہوں نے موضوعات بھیجے، ان میں سے راقم الحروف نے ’’اسلام میں انسانیت اور انسانی اقدار کا تصور: ایک تعارف‘‘ منتخب کیا۔خلاصہ کی منظوری کے بعد مضمون لکھ کر بھیجا اور کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامہ ملا، چنانچہ ۱۹۔نومبر کی شام کو جوڈیشنل اکیڈمی پہنچا، برادر محترم حضرت مولانا مفتی اسد اللہ خان پشاوری صاحب کو کال کی وہ پہلے سے اکیڈمی پہنچے ہوئے تھے، ان سے ہاسٹل کے متعلق پوچھا انہوں نے کمرے تک رہنمائی فرمائی اور کچھ دیر گپ شپ ہوئی۔
پہلے دن ناشتہ کے بعد بدھ ۲۰نومبر کو کانفرنس ہال پہنچا، تقریبا تمام شرکا پہنچے ہوئے تھے اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے بعد کانفرنس کا باقاعدہ آغاز مولانا مفتی اسد اللہ خان پشاوری کی تلاوت سے ہوا، بعد ازاں جناب سید حیات علی شاہ صاحب (جو کہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد کے سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج ہیں) نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور جناب نیکولالمبرٹ سربراہ آئی سی آر سی اسلام آباد نے افتتاحی خطاب کیا۔ اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا۔اس کے بعد پہلی نشست کا آغاز ہوا جس کا عنوان ’’جنگ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ‘‘تھا۔ اس نشست کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین حضرت علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی صاحب کر رہے تھے، انہوں مقالات کے خلاصہ جات پیش کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بیان کیے اور وقت کا تعیین بھی کیا، سب سے پہلے اس کانفرنس کے روح رواں محترم جناب ڈاکٹر ضیا اللہ رحمانی صاحب نے اپنے مقالہ کا خلاصہ ’’جنگ کے دوران شہریوں کا تحفظ: بین الاقوامی قانون انسانیت اور آئی سی آر سی کا کردار‘‘کے موضوع پر پیش کیا۔جس میں انہوں نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کا تعارف کیا، یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر جینوا سوئٹزرلینڈ میں ہے۔اس کا دائرہ عمل پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، یہ ایک غیرجانبدار اور خودمختار ادارہ ہے، اس تنظیم کی بنیاد ایک تاجر ہنری دوناٹ نے ۱۸۶۳ء میں رکھی تھی، دراصل ۱۸۵۹ء میں ہنری نے ایک سفر کے دوران ایک جنگ کا براہ راست مشاہدہ کیا تھا اور جذبہ انسانیت کے تحت مقامی آبادی سے زخمیوں کو فوری طبی مدد پہنچانے کی اپیل کی تھی ۔اس واقعہ کو ہنری نے کتاب کی شکل میں شائع کیا اوراس میں تجویز بھی پیش کی کہ ایک ایسی امدادی تنظیم قائم کی جائے جو دوران جنگ زخمیوں کو بلاتفریق طبی امداد پہنچائے۔اسی تنظیم نے آئی سی آر سی کی شکل اختیا رکی اوراس کے قوانین بنے جسے آئی ایچ ایل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
عالمی قانون انسانیت (International Humanitarian Law – IHL)، ایک ایسا قانونی نظام ہے جو مسلح تنازعات کے دوران انسانی وقار کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ قوانین خاص طور پر جنگ میں متاثرہ افراد، جیسے کہ زخمی فوجیوں، بیماروں، جنگی قیدیوں، اور عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔عالمی قانون انسانیت کے بنیادی اصول یہ ہیں:(۱) امتیاز کا اصول: جنگی کارروائیوں میں فوجی اہداف اور شہریوں کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ شہریوں یا شہری اشیا کو نشانہ بنانا ممنوع ہے۔(۲)ضرورت کا اصول: صرف وہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو فوجی مقاصد کے لیے ضروری ہوں۔(۳)تناسب کا اصول: جنگی کارروائیوں میں شہری نقصان کو کم سے کم رکھنا چاہیے، اور نقصان کو فوجی فائدے کے تناسب میں رکھنا ضروری ہے۔(۴)انسانیت کا اصول: زخمیوں، بیماروں، اور قیدیوں کے ساتھ انسانی ہمدردی سے پیش آنا ضروری ہے۔عالمی سطح پر اس تنظیم نے چند اہم معاہدے بھی کئے ہیں جس کی تفصیل مختصرا پیش کی جاتی ہے: (۱) جنیوا کنونشنز: یہ چار معاہدے ہیں جو ۱۹۴۹ء میں طے پائے اور مسلح تنازعات میں انسانی تحفظ کی وضاحت کرتے ہیں۔زخمی اور بیمار فوجیوں کا تحفظ (زمینی جنگ کے دوران)۔زخمی، بیمار، اور جہاز تباہ ہونے والے بحری جنگی افراد کا تحفظ۔جنگی قیدیوں کے حقوق۔شہریوں کا تحفظ، خاص طور پر مقبوضہ علاقوں میں۔(۲) اضافی پروٹوکولز (۱۹۷۷۔۲۰۰۵)جنیوا کنونشنز کو مزید وسعت دیتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ آئی ایچ ایل کی اہمیت یہ ہے کہ یہ انسانیت کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی پر سزا کا تعین کرتا ہے۔عالمی امن اور انسانی حقوق کے فروغ میں کردار ادا کرتا ہے، آئی ایچ ایل کے نفاذ کی ذمہ داری اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC)، اور دیگر عالمی اداروں کیساتھ ساتھ ریاستوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔اسکے بعد راقم نے ’’اسلام میں انسانیت اور انسانی وقار کا تصور، ایک تعارف‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش کیا اس طرح کے کانفرنس میں شرکت کا یہ پہلا اتفاق تھا، اس وجہ سے پریزنٹیشن کی تیاری پوری نہیں تھی، البتہ مقالے کا اول و آخر پڑھ کر سنایا۔بعد ازاں دیگر حضرات نے مختلف نشستوں میں اپنے مقالات کے خلاصے پیش کئے جن میں ڈاکٹر عزیز الرحمن،ڈاکٹر محمد ثانی،ڈاکٹر مشتاق احمد،ڈاکٹر محمد رفیق شنواری اور مفتی اسد اللہ خان وغیرہم کے نام شامل ہیں۔
جمعرات ۲۱ نومبر چوتھی نشست کی صدارت محترم جناب ڈاکٹر احمر بلال صوفی صاحب نے کی (صوفی صاحب ملک کے معروف ومشہور قانون دان اور کئی کتابوں کے مصنف ومولف ہیں، حال ہی میں ان کی کتاب ’’قرآنی معاہدات‘‘ برادر محترم مولانا محمد اسرار مدنی صاحب نے اپنے ادارہ’’ مجلس تحقیقات اسلامی‘‘ سے شائع کی ہے، جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شعبہ تخصص فی التفسیرمیں یہ کتاب شامل نصاب بھی ہے )اس کے بعد پانچواں اور آخری سیشن تھا جس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کر رہے تھے،اس میں بھی منتخب مقالہ نگاران نے اپنے مقالے پیش کئے اور سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔
اختتامی سیشن مقالات کے بنیادی سیشنز ختم ہونے کے بعد اختتامی سیشن میں ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب نے تلاوت کی، جبکہ جناب سید حیات علی شاہ صاحب نے اپنے تاثرات پیش کیے، انہوں نے فرمایا کہ یہ دو دن آپ لوگوں یہاں پر موجود تھے، آپ کی بدولت یہاں انوارات برس رہے تھے، آپ لوگوں سے عرض ہے کہ یہ باتیں آپ جا کر لوگوں میں بھی عام کریں۔ ڈاکٹر ضیا اللہ رحمانی صاحب نے کلمات تشکر پیش کیے، پروگرام کے لیے محنت کرنے والے جملہ منتظمین کا نام لے کر شکریہ ادا کیا جس میں بطور خاص جناب ثاقب جواد صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ اور آخر میں مہمان خصوصی ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے کلیدی خطبہ پیش کیااس کے بعد اس کانفرنس کا اختتام ہوا۔
’’من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ‘‘ کے پیش نظر محترم جناب ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی صاحب اور محترم جناب ثاقب صاحب (سول حج اسلام آباد) کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جن کی شبانہ روز محنتوں کی بدولت اس قدر علمی و تحقیقی کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا اور ہم طالب علموں کو اہل علم و فضل کے ساتھ بیٹھنے اوران سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کانفرنس میں ڈاکٹر محمد راغب نعیمی صاحب کے عجز وانکسار، ڈاکٹر مشتاق احمد کے وسعت مطالعہ و حاضرجوابی، ڈاکٹر رحمانی وثاقب جواد صاحبان کے حسن انتظام اور جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کی وسعت ظرفی واصاغر نوازی نے بے حد متاثر کیا، اللہ کانفرنس کے سب شرکاء کو سلامت با کرامت رکھے اور علم و تحقیق کے میدانوں میں ان سب سے مزید تعمیری کام لے (آمین)