مغربی افریقہ (سنیگال و گیمبیا) کے بڑی مذہبی جماعتوں کا قادیانیت کے خلاف فتوی

پاکستانی علماء ومشائخ اور دینی اداروں کی بڑی کامیابی

مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی

امتِ مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے جو دولت، نعمت اور خصوصیت عطاء فرمائی ہے، وہ تمام دنیا کے دولتوں، نعمتوں اور خصوصیتوں سے بڑھ کر ہے، وہ نعمت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اختتام کا اعلان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کتاب قرآن مجید میں ان الفاظ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کرلیا اور اپنی نعمت کو تمہارے لیے مکمل کردیا، اورتمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین کے منتخب کرچکا اور مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ’’محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘کے ذریعے اعلان فرمایا ہے۔

یہی وہ انعام وہ احسان ہے جس سے اس امت کو نوازا گیا ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا دراصل وحدتِ عقائد، وحدتِ ارکان، وحدتِ زمان اور وحدتِ مکان کی طرف دعوت دینا ہے کیونکہ بروزِ محشر اس امت کے عقائد بھی ایک ہوں گے، ارکان بھی ایک ہوں گے اور ہر زمان و مکان، ہر عہد اور ہر دور میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں پر ہر ایک وحدت پائی جاتی ہے، دینی وحدت، اعتقادی وحدت اور علمی و فکری وحدت جو مسلمان قرآن کا کلمہ پڑھتا ہے، اسلام کا مدعی ہے تو اس کے عقائد(توحید، رسالت، ختم نبوت پر ایمان) قیامت تک ایک رہیں گے۔

یہی وحدت اعتقادی ہے۔نماز، روزہ، زکوٰۃ اور مناسکِ حج ہمیشہ کے لیے ایک ہی رہیں گے اور یہ وحدتِ ارکانی ہے۔سب پیغمبر برحق ہیں لیکن یہ خصوصیت اللہ تعالیٰ نے کسی کو عطاء نہیں فرمائی بلکہ یہ امتیاز اورخصوصیت اسی امت کے حصہ میں آئی، تاریخ شاہد عدل ہے کہ کسی بھی نبی اور رسول نے سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خاتم الرسل و خاتم الانبیاء ہونے کا دعوی نہیں کیا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا۔

دیگر مذاہبِ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو وہ تضادات کا مجموعہ معلوم ہوتے ہیں،ارکان کا اختلاف، اختلافِ زمانہ کے ساتھ بدلتے احکام، علمی و سائنسی تحقیقات و اکتشافات اور نئے فوائد کے حصول کی خاطر تغیر و تبدل کرنے سے نیا دین، نیا عقیدہ پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں،اسلام اور مسلمانوں پر کتنے سیاسی انقلابات آئے، موانع پیدا ہوئے لیکن یہی روزہ، زکوٰۃ، حج سارے ارکان اسی طرح باقی ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماگئے اور کر گئے، یہ ختمِ نبوت اور اتمامِ نبوت کی برکت اور ثمر ہے، امتِ مسلمہ کو اگر یہ دولت نہ ملتی تو یہ اعزاز و امتیاز بھی ہر گز نہ ملتا۔

غیر مسلم ہمیشہ سے اس کوشش میں رہے کہ اس دائمی وابدی دین میں تبدیلی کرے، ان غیر مسلموں میں سب سے زیادہ مسیحیوں اور یہودیوں نے سعی و کوشش کیے، مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ اسدی اور سجاع وغیرہ سب کے پیچھے غیر اسلامی طاقت کام کررہی ہے تھی۔اور دورِ حاضر کے سب سے بڑے فتنے ’’فتنہ قادیانیت‘‘توحکومتِ برطانیہ کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ہے، قادیانی اسلام، جہاد اور مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کی حمایت میں لکھی گئی کتابیں جمع کی جائیں تو بلامبالغہ کتب خانہ بن جائے۔

انگریزوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ان کے مقابلہ کرنے والے مسلمان ہی تھے جو جذبہ جہاد اور دینی حمیت سے معمور ہو کر مختلف محاذوں میں انگریز کے خلاف جان نثاری سے لڑے، انگریز نے مسلمانوں کی اس دینی حمیت کو ختم کرنے یا کمزور و ٹھنڈا کرنے کی خاطر مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا، چونکہ مرزا کا خاندان عرصہ سے انگریزوں کا وفادار تھا، یہ بات انگریزوں نے بھی لکھی ہے اور مرزا نے خود بھی لکھی ہے کہ: ’’ میں نے انگریزوں کی حمایت اور جذبہ جہاد و حمیت ِ دینی کی تردید میں اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ پچاس الماریاں بھر جائیں۔‘‘اسی وجہ سے انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کی پوری سرپرستی اور حمایت کی اور اب بھی برطانیہ اور مغربی ممالک اس فتنہ کی مکمل سرپرستی کررہے ہیں اور انہیں ہر طرح سپورٹ کررہے ہیں۔

اکابر علماء ومشائخِ امت نے اس فتنہ کو ابتداہی سے بھانپ لیا تھا اور اس کی سرکوبی کے لیے ہر میدان میں خدمات انجام دے کر’’قادیانی کفر‘‘کو طشت از بام کیا، دین جو کہ آج تک بحمداللہ صحیح شکل میں موجود ہے، قرآن وحدیث اور ائمہ سلف کی کتابوں میں محفوظ ہے، یہ ختمِ نبوت کا صدقہ ہے، امت کا باقی رہنا بھی ختمِ نبوت سے مشروط ہے لہٰذا اس عقیدے کا تحفظ و بقا کی ضمانت ہے۔اسی فریضہ’’تحفظ عقیدہ ختم ِ نبوت‘‘کو انجام دینے کی خاطر اکابر و مشائخ نے سینکڑوں تصنیفات و تالیفات اور مضامین ومقالات تحریر فرمائے ہیں،فتوؤں،عدالتی فیصلوں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی تک اس فتنے کا تعاقب کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔

اس فتنے کے پھیلانے والوں کا زیادہ زور اور محنت غریب، مجبور اور بے بس مسلمانوں پر ہوتا ہے تاکہ پیسوں کے ذریعے ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈال سکیں، گزشتہ دو سال احقر نے اپنے رفقا پیر زاہد شاہ گیلانی، سید مقبول احمد گیلانی اور برادرم حضرت مولانا مفتی سخی بہادر صاحبان کے ہمراہ مغربی افریقہ کے ممالک سنیگال اور گیمبیا کا سفر کیا، بالخصوص گیمبیا میں قادیانیت زیادہ متحرک تھی ان کا لٹریچر مقامی اور انگریزی زبانوں میں سرکاری دفاتر تک پہنچ گیا تھا، جس کا معائنہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے کیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم رسالت اور ناموس پر حملہ ہو تو کوئی ادنی مسلمان بھی خاموش نہیں رہ سکتا، اس وجہ سے بھائی سید مقبول احمد گیلانی صاحب سے مشورہ کیا اور مقامی علماء سے بات چیت شروع کی، انہیں قادیانیوں کے کفر وارتداد سے متعلق بتایا اور انہیں عربی و انگریزی کی کتابیں جو ہمارے پاس پی ڈی ایف میں موجود تھیں بھیجیں، ان میں سے بعض کا نہایت مثبت اور حوصلہ افزا جواب آیا، بعض نے مشورہ دیا کہ ان کے خلاف متفقہ فتوی جاری کیا جائے، اب اس کیلئے میدان ہموار کرنا تھا، اللہ تعالی جزائے خیر سے نوازے پیر سید زاہد شاہ گیلانی کوکہ انہوں نے سنیگال کے بڑے پیر منتقیٰ کے بیٹے شیخ ابراہیم امباکی اور ان کے خلیفہ وداماد شیخ منتقی کو دو مرتبہ پاکستان لے آئے، اسی طرح سنیگال کے سپریم اسلامی لیڈر شیخ عیسی طوری کو ایک وفد کے ہمراہ دعوت دی اور وہ مختلف اوقات میں پاکستان تشریف لائے، شاہ صاحب نے ان کی مہمان نوازی کی، پاکستان کے معروف دینی مدارس، تبلیغی مراکز اور ختم نبوت کے مراکز کا دورہ کرایا، علما و مشائخ سے ملاقاتیں کروائیں، عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانی دجل و فریب سے انہیں آگاہ کیا۔

یہ حضرات جب واپس گئے تو شیخ عیسی طوری(سپریم اسلامی لیڈر گیمبیا) نے پیغام بھیجا کہ ہم مسئلہ ختم نبوت کو اپنے سرکاری اسکولوں و مدرسوں کے نصاب کا حصہ بنا رہے ہیں،شیخ ابراہیم اور شیخ منتقیٰ کی آمد کے موقع پر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدطلہ اور مولانا راشد الحق سمیع مدظلہ انہیں مشورہ دیا کہ آپ حضرات ایک فتویٰ جاری کریں، اس سال مگل پر جب پیر سید زاہد شاہ گیلانی اپنے دو دامادوں سید مقبول احمد گیلانی اور سیدگیلانی کے ہمراہ تشریف لے گئے تو انہوں نے پیر صاحب سے فتویٰ لیا، پھر اسی فتویٰ کو لے گیمبیا میں سپریم اسلامی لیڈر سے بھی فتوی لیا اور اس کی تشہیر بھی کی، یہ یقینا بہت بڑی کامیابی ہے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے فتوؤں میں قادیانیت کے کفر کو آشکارہ کرکے عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت کی ہے۔

الحمد للہ! اس عقیدہ کی تحفظ کے لیے جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ ختک کی خدمات روز اول سے ہیں، ہر میدان میں دارالعلوم کے بانیان، مشائخ واساتذہ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں، اللہ تعالیٰ دارالعلوم کو مزید ترقیات سے نوازے اور ہر قسم کے اشرار سے اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہم خدام کو عقیدہ ختم نبوت پر مر مٹنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)