قادیانیت کے خلاف اٹھنے والی تحریک ختم نبوتؐ

حافظ محمد زاہد
مضمون نگارماہنامہ ’’الفاروق‘‘ کراچی

عقیدہ ختم نبوت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنااسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔اس عقیدہ کی اہمیت روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اس عقیدہ کا انکار قرآن وسنت ،عمل صحابہ اوراکابرین امت کی نظر میں صریحا کفر ہے۔ قرآن کریم کی تقریباًسو آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً۲۱۰؍احادیث مبارکہ میں اس اہم عقیدہ کو بلاواسطہ اور بالواسطہ بیان کیا گیا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں نبوت کا دعوی کرنے والے اسود عنسی کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور پھر اس کے قتل پر خوشی کا اظہار بھی فرمایا۔اس کے علاوہ امت مسلمہ کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی مسئلہ پر منعقدہوا،بایں طور کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب کے قتل پر تمام صحابہ کرامؓ نے اتفاق کیااور پھر اس کے بعد سے آج تک تمام زمانوں میں نبوت کے دعوے داروں کے کفر وارتداد پر امت ِمسلمہ کا اجماع بلا فصل ہے۔ عقیدئہ ختم نبوت کی اسی اہمیت کی بدولت پوری امت مسلمہ ختم نبوت کے مسئلہ پر یکسو اور متحدہے اور جب بھی کسی کمینہ خصلت نے نبوت کا دعوی کیا تومسلمانوں نے کبھی اپنی تلواروں سے اس کا قلع قمع کرکے اسے جہنم واصل کیا تو کبھی قلمی جہاد کے ذریعے اس فتنہ کو راندہ درگاہ کیا۔

بیسویں صدی کے آغاز یعنی ۱۹۰۱ء میں برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیاتو علماء ومشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا اور بالآخر ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستانی پارلیمنٹ نے اس فتنے کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی اور متفقہ طور پر قادیانیت کے دونوں گروہ(مرزائی اور لاہوری گروپ)کو کافر قرار دے دیا گیا۔

فتنہ قادیانیت کا پس منظر

برصغیر پاک و ہندمیں جب انگریز اپنے ظلم وستم اور زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن کے ذریعے اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے پورے ہندوستان کا سروے کرایا۔کمیشن نے یہ رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے لیے ان کے دلوں سے جذبہ جہاد مٹانا بے حد ضروری ہے اور اس کا طریقہ کاریہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعوی کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو لازم سمجھتا ہو۔اس مقصد کیلئے انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا، جو اس وقت کسی سرکاری ادارے میں کلرک کے طور پرکام کررہا تھا، اس کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ قادیانی خاندان شروع دن سے مسلمانوں کے خلاف رہا ہے،انہوں نے سکھوں کے دورِ اقتدار میں سکھوں کیساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور پھر انگریزوں کے دور میں بھی مسلمان مجاہدین کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔مرزا قادیانی نے جہاد کی حرمت اور انگریزوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا اور پھر اس نے بتدریج خادمِ اسلام،مبلغ اسلام،مجدد،امام مہدی،مثیلِ عیسی،ظلی نبی(یعنی نبی کا سایہ)،بروزی نبی، مستقل نبی ،حتی کہ خدائی تک کا دعوی کیا۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے اور خطرناک سازش کے تحت کیا گیا۔

تحریک ختم نبوت اور اس کے مراحل

جب اس فتنہ نے برصغیر پاک وہندمیں سراٹھایا تویہاں کے علماء ومشائخ نے اپنی تحریرات ،تقاریر،خطاباتِ جمعہ ،علمی مباحثوں اور مناظروں کے ذریعے قادیانیت کا ڈٹ کرمقابلہ کیااورمرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو چاروں شانے چت کر دیا۔ان میں مولانا ثنا اللہ امرتسری ،مولانا لطیف اللہ علی گڑھی ،مولانا احمد حسن دہلوی ، شیخ الہند مولانامحمود حسن، علامہ انور شاہ کاشمیری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا عبداللہ لدھیانوی ،مولانا محمد اسماعیل ، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا مرتضی حسن چاند پوری ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور پیر سید مہر علی شاہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)شامل ہیں۔سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے قادیانیت کی ابتدائی تحریروں کو دیکھ کر ا س کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا اور بعد میں پوری امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اس فتوی کی تصدیق وتوثیق کی لیکن سرکاری اور عدالتی سطح پر اس حقیقت کو منوانے میں بہت وقت لگا اور اس کے لیے بہت جدوجہد کی گئی۔ذیل میں فتنہ قادیانیت کے خلاف اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی اس صدی کی اس عظیم جدوجہد کا مرحلہ وار ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے

مقدمہ بہاولپور

فتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیلردِ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پوربہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بے جا نہ ہوگا۔ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا کی۔اسلامک فاونڈیشن نے اس مقدمہ کی تمام تر تفصیلات تین ضخیم جلدوں میں مرتب کی ہیں ،جس کے بارے میں جلیل القدر علماء کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے بعد اب قادیانیت کے خلاف کسی اور تصنیف کی ضرورت نہیں ہے۔اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ، ریاست بہاول پور میں عبد الرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغت کو پہنچ کر اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926 کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ ِنکاح کا دعوی کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاولپور کو بغرضِ شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں کہ نہیں؟اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا ۔قادیانیت کے خلاف امت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کاشمیری پر پڑی اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے بہاولپور تشریف لائے اور فرمایا:جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل جانے کے لیے پابہ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھااگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا محمد شفیع،مولانا مرتضی حسن چاند پوری،مولانا نجم الدین،مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انورشاہ کاشمیری (رحمہم اللہ تعالیٰ)کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اٹھی۔

مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اڑا دیے۔عدالت میں موجود علماء کا کہنا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیری جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوار جھوم اٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ایک دن مولانا نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر کہا:اگر چاہوتو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے۔یہ سن کر عدالت میں موجود تمام مرزائی کانپ اٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔خواجہ خان محمد اس بارے میں لکھتے ہیں:اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیںبلکہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔

جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934 میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کیلئے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے،لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)نے۷؍فروری۱۹۳۵ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیںبلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دیدیا گیا۔

مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی، اس تاریخ سا ز فیصلہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔اس مقدمہ کے حوالے سے جہاں علما کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ،وہیں غلام عائشہ اور ان کے والد گرامی مولوی الٰہی بخش کا بھی پوری امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے ایک مرزائی کے خلاف فسخ ِنکاح کے دعویٰ کیا، جو ردِ قادیانیت کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا۔

۱۹۵۳ء کی تحریک تحفظِ ختم نبوت آل انڈیا مسلم لیگ نے جب قائداعظم کی قیادت میں ایک الگ ریاست کے لیے جدوجہد شروع کی تو مرزائیوں نے کانگریس کے ہمنوا بن کر اس کی بھرپور مخالفت کی،دوسری طرف کانگریس نے بھی احمدیت کا بھرپور ساتھ دیا اور جب قادیانیوں نے مکہ ومدینہ کے بجائے مسلمانوں کا رُخ قادیان کی طرف موڑنا چاہا تب ہندو لیڈروں نے انہیں جی بھر کر داد دی۔ قادیانیوں کے لیے اکھنڈ بھارت اس لیے ضرور ی تھا کہ وہ اپنے آپ کو کسی اسلامی ریاست کے مقابلے میں ایک سیکولر ریاست میں رہنے کو زیادہ مفید سمجھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی لیکن جب تقسیم کا اعلان ہوگیا تو انہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی اور قادیان کو پاکستان یا بھارت کا علاقہ قرار دینے کے بجائے اسے ویٹیکن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مطالبہ تو نہ مانا گیا، مگر ضلع گورداس پور کو مسلم اقلیت کا صوبہ قرار دے کر اس اہم ترین علاقہ کو بھارت کے حوالے کردیاگیا۔اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بھارت کو کشمیر کے لیے زمینی راستہ مل گیا اور کشمیر پاکستان سے کٹ گیا۔

۱۹۴۷ء میں ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔بدنصیبی سے پاکستا ن کا وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی کو بنادیا گیا، جس نے قادیانیت کو اندرون وبیرونِ ملک متعارف کرانے کے لیے سرکاری ذرائع کا بے دریغ استعمال کیا۔دوسری طرف خواجہ ناظم الدین کے دورِ اقتدار میں دستورِ پاکستان کی تدوین زیر بحث تھی اور اس ضمن میں مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں میں شامل نہ کیا جائے بلکہ ان کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے لیکن جب دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو اس میں ملک کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب تجویز کیا گیا تھااور اقلیتوں کی نشستیں الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا،مگرمسلمانوں کے لیے حد درجہ دکھ کی بات یہ تھی کہ قادیانیوں کو اقلیت نہیںبلکہ مسلمانوں میں شمار کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ۱۹۵۲ء میں قادیانیوں کے نام نہاد خلیفہ مرزا محمود نے اعلان کیا کہ یہ ہمارا سال ہے اور ہم اس سال بلوچستان کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم احمدی صوبہ بنا لیں گے۔یہ اعلان مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا۔اس موقع پر اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سید عطا  اللہ شاہ بخاری میدان میں آئے،انہوں نے علماء کو متحد کیا اور مجلس تحفظِ ختم نبوت کے باضابطہ قیام کا اعلان فرمایا۔ دسمبر۱۹۵۲ء کے آخری دنوں میں چنیوٹ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے پر جوش تقریر کرتے ہوئے فرمایا: اے مرزا محمود!۱۹۵۲ء تیرا تھا اور اب۱۹۵۳ء میرا ہو گا۔

اسی کانفرنس کے موقع پر مجلس تحفظِ ختم نبوت کے راہنماں کا ایک خصوصی غیر رسمی اجلاس منعقد ہوا، جس میں طے پایا کہ مرزائیوں کی جارحیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس لیے اس کا سد باب کرنابے حدضروری ہوگیاہے، اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔جنوری ۱۹۵۳ء کے آخر میں علماء کا ایک وفد خواجہ ناظم الدین سے ملا اور چا ر مطالبات پیش کیے:مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے،ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا جائے۔

خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ظفر اللہ خان کو ہٹانے اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے امریکہ پاکستان سے ناراض ہو جائے گا اور ہر قسم کی امداد بند کر دی جائے گی۔وفد کی طرف سے حکومت کو اتمامِ حجت کے لیے ایک ماہ کا تحریری نوٹس دیا گیا، جس میں لکھا گیا کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کیا جائے، ورنہ ہم قادیانیوں کے خلاف براہِ راست تحریک چلائیں گے۔ ایک ماہ گزر گیا اور حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی تو مجلس تحفظ ختم نبوت نے باضابطہ تحریک کاآغاز کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ختم نبوت کی یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہوگئی، پاکستانی حکمرانوں نے اس تحریک کو اپنے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا۔چنانچہ خواجہ ناظم الدین اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز احمد دولتانہ نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔پاکستانی حکم رانوں اور جنرل اعظم خان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نے ہلاکو خان اورچنگیز خان کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔اسی دوران جنرل اعظم نے پاکستان میں پہلی مرتبہ لاہور میں جزوی مارشل لا لگایا۔

ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی اس تحریک میں دس ہزار سے زائد مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور تقریبا دس لاکھ سے زائد مسلمان اس سے متاثر ہوئے۔مرزائیوں اور ان کے ہمنواؤں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا اور انہیں یورپین ممالک کی مدد بھی حاصل تھی مگر مسلمانوں نے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر سامنے آگیا، اس شکست پر قادیانیوں نے عوامی محاذترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا اور وہ انقلاب کے ذریعے اقتدار کا خواب دیکھنے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل کے عذاب کا کوڑاختم نبوت کی اس مقدس تحریک کی مخالفت کرنے والوں،اس کو کچلنے والوں،ظلم کرنے والوں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں پر اس بے دردی سے برسا کہ سب عبرت کا نشان بن گئے۔اس حوالے سے کاروانِ تحریک ِختم نبوت کے چند نقوش نامی کتاب میں تفصیل موجود ہے۔

۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت(جب قادیانی غیر مسلم قرار پائے)۱۹۷۰ء کے الیکشن میں مرزائیوں نے چند سیٹیں حاصل کرلیں اور وہ انقلاب کے ذریعے پورے پاکستان پر قبضہ کا خواب دیکھنے لگے، دوسری طرف ۱۹۵۳ء کی تحریک اگرچہ بظاہر ختم ہوگئی تھی، مگر قادیانیت کے خلاف علما ومشائخ اپنی اپنی سطح پر کاوشیں جاری رکھے ہوئے تھے۔انہی کاوشوں کے نتیجہ میں آخر کار۱۹۷۳ء میں آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردے کر بارش کے پہلے قطرے کاکام کیا۔ملک بھر میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔

پھرایک واقعہ ہوا جس نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ مئی1974 میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے،طلبہ جب پشاور سے واپسی پر 29مئی کو ربوہ پہنچے توقادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اورطلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔آناً فاناً یہ خبر فیصل آباد پہنچ گئی،مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی رہنما مولانا تاج محمود ایک بہت بڑا جلوس لے کر فیصل آبادا سٹیشن پر پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے اس کھلی غنڈہ گردی پر زبردست احتجاج کیا اور زخمی طلبہ کی مرہم پٹی کرائی گئی۔ اگلے روز یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کاایک طوفان امڈپڑا۔پنجاب اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد نے اس واقعہ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا:ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام مسالک کے علما متفق ہیں کہ قادیانی دائرئہ اسلام سے خارج ہیں۔مجلس تحفظ ِختم نبوت کے اس وقت کے امیر مولانا سید محمدیوسف بنوری کی دعوت پر تمام طبقات نے لبیک کہا اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی جس کا امیر بھی مولانا یوسف بنوری کو بنایا گیا۔

۹؍جون۱۹۷۴ء کولاہور میں اس مجلس کا پہلااجلاس منعقد ہوا،جس میں قادیانیت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔اس تحریک کا بس ایک ہی نعرہ تھا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔اس حوالے سے مجلں عمل کے قائدین نے پورے ملک کے طوفانی دورے کیے اور قادیانیت کے خلاف محاذ پر تمام مکاتب فکر کو متحدکیا۔ اخبارات،دینی جرائد اور طلبہ تنظیموں نے اس تحریک میں ایک جوش کی روح پھونک دی۔قادیانی اس تحریک سے بلبلا اٹھے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے کئی جگہ دستی بموں سے حملے کیے۔حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی اورتحریک ختم نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی ،مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی جلا بخشی اور تحریک پھیلتی چلی گئی، بالآخر حکومت نے قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے اپوزیشن کی طرف سے ایک بل پیش کیا(جس پر۳۷؍معزز و محترم اراکین اسمبلی کے دستخط موجود تھے)او رحکومت کی طرف سے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی ۔اس طرح قومی اسمبلی میں مرزائیت پر بحث شروع ہوگئی۔قادیانیوں کے مرزائی اور لاہوری گروپ نے اپنے اپنے موقف تحریری شکل میں پیش کیے، قادیانی گروپ کے جواب میں ’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ دوسوصفحات پر مشتمل ایک مکمل کتاب کی شکل میں تیار کیا گیا(یہ کتاب اب شائع بھی ہوچکی ہے) مولانا محمد یوسف بنوری کی قیادت میں مولانا محمد شریف جالندھری ،مولانا محمد حیات،مولانا تاج محمود، مولانا عبدالرحیم اشعرنے حوالہ جات کی تدوین کا کام کیا،جبکہ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا سمیع الحق نے ان حوالہ جات کو ترتیب دے کر ایک خوب صورت کتاب کی شکل میں مرتب کیا۔

’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ کے اس موقف کو اسمبلی میں پڑھنے کی سعادت مولانا مفتی محمودکوحاصل ہوئی۔قادیانی گروپ کی طرف سے مرزا ناصر اورلاہوری گروپ کی طرف سے صدر الدین، عبدالمنان عمر اور سعود بیگ اسمبلی میں پیش ہوئے۔ لاہوری گروپ کے جواب میں مولاناغلام غوث ہزاروی نے مستقل طور پرایک محضر نامہ تیارکیا۔یہ بحث دوماہ کے طویل عرصہ تک جاری رہی۔ان دو ماہ میں قومی اسمبلی کے۲۸؍اجلاس اور۶۸نشستیں منعقد ہوئیں۔گیارہ روز تک لاہور ی گروپ کے مرزا ناصر اور نو روز تک قادیانی گروپ کے نمائندوں پر جرح ہوتی رہی۔ اس جرح پر ان کا سانس پھول جاتا،انہیں پسینے آجاتے اور وہ باربار پانی مانگتے۔5،6ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔ 7ستمبر کو فیصلے کے دن حالات بہت خراب ہوگئے۔بھٹو صاحب بیرونی دبائو کی وجہ سے اس آئینی ترمیم پر دستخط سے انکاری تھے، اس لیے بڑے بڑے شہروں میں فوج تعینات کردی گئی اور تحریک ختم نبوت کے قائدین اور کارکنوں کی لسٹ بنا لی گئی، جنہیں رات کو گرفتا رکرنا تھامگر خالق کائنات مسلمانوں کے حق میں فیصلہ لکھ چکا تھا۔ ایک حدیث کے مطابق تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے بھٹو صاحب کے دل کو پھیر دیا اور مفتی محمود صاحب کے ان کو منانے کے بعد بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب۷؍ستمبر۱۹۷۴ء کو۴بج کر۳۵ منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ)کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا۔یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان فرطِ مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے۔پورے ملک میں اسلامیانِ پاکستان نے گھی کے چراغ جلائے۔اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیا۔یہ یقینا بہت بڑی کامیابی تھی۔

۷؍ستمبر کوسرکاری اور انفرادی سطح پر یومِ ختم نبوت منایا جائے!سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے۔یہ دن ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔اس عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا۔قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا۔اس دن کو یاد رکھنا اور اس کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے اوریہ یقینا ختم نبوت کے تحفظ کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔اس حوالے سے میری پوری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ۶؍ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان منانے کی طرح 7ستمبر کو یومِ ختم ِ نبوت عظیم الشان طریقے سے منانے کا اہتمام کرے۔

۱۹۸۴ کی تحریک ختم نبوت جنوری ۱۹۷۵ء میں ربوہ کو کھلا شہر قرار دے دیا گیا اور اس کا نام چناب نگر رکھا گیا۔چناب نگر میں وسیع رقبہ پر رہائشی سکیم تیار کی گئی، جس کا نام مسلم کالونی رکھا گیااور وہاں مسلمانوں کو آباد کیا گیا۔ اس مسلم کالونی میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ایک عالی شان ختم نبوت مسجد تیار کی، جہاں ۱۹۸۲ء سے ہر سال سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔۱۷؍فروری ۱۹۸۳ء  کو مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک مبلغ محمد اسلم قریشی کو مبینہ طور پر مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا تو یہ واقعہ ایک بھرپور تحریک کا سبب بنا۔اس تحریک کے سبب (مولانا سمیع الحقؒ کی تحریک پر) جنرل ضیاء الحق نے ۲۶؍اپریل۱۹۸۴ کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس جاری کر دیا ،جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا،اذان دینا،اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔اس آرڈیننس کے بعد قادیانیوں کا اس وقت کا سربراہ مرزا طاہر احمد یکم مئی ۱۹۸۴ء کوبھیس بدل کر بھاگ کر لندن جا پہنچا اور انگریز کے پاس پناہ حاصل کی اور اپنا ہیڈ کوارٹر چناب نگر سے لندن منتقل کر لیا۔ مگر ختم نبوت پر مر مٹنے والے علما ومشائخ نے وہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور پوری دنیا کے دورے کیے اور دنیا بھر کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو قادیانیت کے کفر سے آگا ہ کیا۔

ایک گزارش اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم اور۱۹۸۴ئکے امتناع قادیانیت آرڈیننس پر نیک نیتی کے ساتھ موثر طور پر عمل در آمد کرائے اور مرزائیوں کو اپنی حیثیت کے اندر رہنے کا پابند بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کرے۔اس کے علاوہ قادیانیت کی تبلیغ وتشہیر کی پابندی پر بھی سختی سے عمل درآمد کرایاجائے، تاکہ روئے زمین سے قادیانیت کا نام ونشان تک مٹ جائے مولانا انور شاہ کاشمیری کا ایک کشف ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ پوری دنیا میں مرزائیت نام کی کوئی چیز تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملے گی۔ وہ وقت اب قریب آن پہنچا ہے کہ قادیانیت کا فتنہ دنیا سے نیست و نابود ہونے والا ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے سے ایک صدی پر محیط اس تحریک کے شہدا کے درجات کو بلند فرمائے اور اس تحریک میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے افراد کی کاوشوں کو قبول فرما کر ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنائے ۔آمین یا رب العالمین!

تحریک ختم نبوت کے حوالے سے قلمی جہادکی ایک جھلک محترم اللہ وسایا نے قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت کے عنوان سے قادیانیت کے خلاف 1990 تک لکھی جانے والی ایک ہزار کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کو 23سال کا عرصہ دراز گزر چکا ہے اور اب کتابوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہوگا۔یہ صرف کتابوں کا تذکرہ ہے ،ورنہ اس فتنہ کے بارے میں لکھی گئی تحریرات کا شمار کیا جانا مشکل سے بڑھ کر ناممکن کی حد تک پہنچ چکا ہے۔