قادیانی مسئلہ کے حل کے بعد مدیر ’’الحق‘‘ کا سوالنامہ
جناب بابر حنیف
انچارج شعبہ کمپیوٹرجامعہ حقانیہ
ستمبر ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے فیصلے کے بعد حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒنے عالم اسلام کے جید اکابر اور ارباب علم و دانش کی خدمت میں سوال نامہ ارسال کیا تھا۔ سوالنامے کے جواب میں عالم اسلام کی تمام عبقری شخصیات نے اپنے اپنے جوابات ارسال فرمائے تھے جو کہ دفاع ختم نبوت اور رد قادیانیت کے حوالے سے مستقبل کے لائحہ عمل کو واضح کرتا ہے ۔ وہ سوال نامہ اور اہل علم حضرات کے جوابات سے چیدہ چیدہ اقتباسات نذر قارئین کیے جارہے ہیں۔
محترم المقام زید مجدکم!
قادیانی مسئلہ کا بہترین حل تاریخ اسلامی کا ایک زریں حصہ بن چکا ہے۔ جن لوگوں نے جس درجہ میں بھی اس جہاد میں حصہ لیا ان شاء اللہ یہ ان کے لیے اب بارگاہ ایزدی اور بارگاہ رسالتؐ میں بے پناہ خوشنودی اور سرخروئی کا باعث بنے گا۔ قادیانی فیصلہ آقائے مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر نام لیوا کے لیے بے پناہ جذبات اور مسرتوں کاباعث بنا۔’’الحق‘‘ اس موقع پر زیر ترتیب شمارہ میں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ملت کے ایسے جذبات و احساسات کا ایک حسین گل دستہ پیش کرنا چاہتا ہے چونکہ آپ بھی اپنی استطاعت کے مطابق اس جہاد میں شریک رہے ہیں، اس لیے ملت محمدیہ کے ایک نامور فرزند اور ایک دردمند خادم کی حیثیت سے اس گلدستہ میں چند پھول شامل کرنے کے لیے حسب ذیل سوالات کا جواب ایک دو صفحوں یا چند سطروں ہی میں ارسال فرمادیجیے۔
- قادیانی مسئلہ کے اس حل پر آپ کے احساسات، جذبات اور تاثرات کیا ہیں؟
٭ قادیانی مسئلہ کے دینی اور سیاسی اثرات ملک و بیرون ملک پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں،
اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
٭ اقلیتوں کے تحفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا مسلمانوں کی ذمہ داری اس فیصلہ پر ختم ہوگئی؟ یا اس
فتنہ کے مہلک اثرات کا تعاقب و احتساب ہمارے لیے جاری رکھنا ہوگا؟
٭ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کا طریقہ کار اورلائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
سمیع الحق
- الشیخ محمد صالح القزاز (سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ)
و الواقع أن ذلک فضل من اللہ حیث جاء الحق و زہق الباطل لأن ہذہ الفئۃ عاشت فی الارض فسادا ونشرت رعایتہا الضلالۃ زہاء تسعۃ و تسعین عاما و سیطرت علی أفکار کثیر من المسلمین فی أوربا و أفریقیا حیث وقعوا فی شراک ضلالہا۔
- حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی (مہتمم دارالعلوم دیوبند)
ممالک اسلامیہ کی ۳۲؍اسلامی تنظیموں کے سربراہوں کی کانفرس (منعقدہ اپریل ۱۹۷۳ء جدہ)نے بالاتفاق یہ صحیح ترین اور تاریخی اعلان کیا کہ قادیانی فرقہ غیر مشروط طریقہ پر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کی ختم نبوت کو نہ ماننے اور انبیائے کرام ؑکی توہین کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ عالم اسلام کے اس متفقہ اور تاریخی اعلان حق نے اہل حق کو نہ صرف قوت بخشی ہے بلکہ قادیانیوں کے مرتد ہونے کے بارے میں قرآن و حدیث پر مبنی اہل حق کے دینی موقف کو عظیم مضبوطی عطا کی ہے، عالم اسلام کے اس متفقہ فیصلے کے بعدپاکستان کے علمائے حق اور عام المسلمین مستحق مبارک باد ہیں کہ انہوں نے قادیانی فرقہ کے ارتداد کے بارے میں اپنے اور تمام مسلمانان عالم کے موقف حق کی حکومتی سطح پر تائید و توثیق حاصل کرنے میں پہل کی ہے۔
- شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ (ممبر قومی اسمبلی )
دسمبر ۱۹۷۴ء کے تاریخی فیصلہ پر ہمیں مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ مرزائیت کے سب کے لئے پورے عالم اسلام میں سرگرم عمل ہو جانا چاہیے ۔ ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ لاہو ر،جناب مجیب الرحمن شامی ۱۵ تا ۲۱ ستمبر ۱۹۷۴)
- حضرت علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ (صدر مجلس عمل)
اختصار بلکہ ایمان سے عرض ہے کہ آئینی فیصلہ نہایت صحیح اور باصواب ہے۔ اگرچہ بعد از وقت ہے اور بعد از خرابی بسیار۔ وزیر اعظم صاحب نے خود اخبارات میں یہ اعتراف فرمایا ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حل ہونے سے پاکستان کو سیاسی استحکام حاصل ہوگیاہے اور یہ اعلان فرمایا کہ پاکستان آج صحیح معنوں میں پاکستان بنا ہے۔ دونوں سیاست دانوں کے اس اعلان سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی یہ کام کتنا عرصہ پہلے ہونا چاہیے تھا۔
- حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ (رہنما جمعیت علماء اسلام)
پاکستان کی پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کو دستوری تحفظ دے کر مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ یہ یقینا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ اس سلسلہ میں پوری قوم اور پاکستانی ملت اور جملہ ارکان پارلیمنٹ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے اراکین خصوصیت سے مستحق تبریک ہیں جنہوں نے تین ماہ کی طویل جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر حکومت کے ہر تشدد کا نشانہ بن کر اس تحریک کو کامیاب بنایا۔
- اکابر اساتذہ دارالعلوم دیوبند
ان مخلصین کی مساعی مشکور ہوئیں اور دعائیں مستجاب کہ آج پورے عالم اسلام نے بیک زبان کذاب اعظم مرزائے قادیان اور اس کے حاشیہ برداروں کے بارے میں الحمد للہ شرعی فیصلہ کو اجتماعی فیصلہ بنادیااور اس اجتماعی فیصلے کو آئینی اور دستوری حیثیت دلانے کی اولیت کا شرف حاصل کرکے ارض پاک کے علمائے کرام اور عام المسلمین اس دعا کے ساتھ مستحق تہنیت و تبریک ہیں کہ اللہم عز السلام و المسلمین و انصرہم علی عدوک و عدوہم.
- مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ (مدیر ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند)
اس مسئلہ پر میرا تاثر یہ ہے کہ یہ صرف پاکستانی عوام کی نہیں بلکہ دنیائے اسلام کی بڑی کامیابی ہے کہ پاکستانی حکومت نے قادیانیوں کو ایک اقلیت قرار دیا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ قادیانی مار آستین بن کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اب پوری دنیا میں دین اسلام سے خارج قرار دینے میں سہولت ہوگئی مگر ضروری ہے کہ ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے پاکستان میں ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری حفاظت کی جائے۔ انہیں ایک اقلیت قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں ان کی عزت و آبرو اور شہری حقوق پائمال کیے جائیں۔
- حضرت مولانا میاں عزیر گل صاحب ؒ (اسیر مالٹا)
مجلس عمل نے جو کام کیا، قابل صد آفریں ہے۔کام کی ابتدا ہوئی ، ختم نہیں ہوا۔ ایک کام حکومت کا ہے، دوسرا رعایا کا۔ رعایا کا کام تعمیل حکم مجلس عمل ہے
- حضرت مولانا محمد شفیع صاحب ؒ (مفتی اعظم پاکستان، بانی و صدر دارالعلوم کراچی)
قادیانی مسئلہ کے حل پر ہر مسلمان کے احساسات اور جذبات ایک ہی قسم کے ہیں۔ ایک عرصہ دراز کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی سچی مسرت نصیب کی ہے جس پر عالم ِاسلام کا ہر گوشہ مسرور اور شاداں نظر آتا ہے۔ یہ اس طویل جدوجہد کا ایک کامیاب مرحلہ ہے جو مسلمانوں اور علمائے اسلام نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں شروع کی تھی۔
- علامہ مولانا شمس الحق صاحب افغانیؒ (سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند و جامعہ اسلامیہ، بہاولپور)
دور حاضر میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے جو فیصلہ حکومت نے کیا وہ انتہائی مسلمانہ و جرت مندانہ اقدام ہے جسکی جرت سابق پاکستانی حکمران نہ کرسکے اس دور میں اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا۔
- حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ (سربراہ کل پاکستان جمعیت علمائے اسلام، راولپنڈی)
مرزائیت کا اللہ تعالی نے خاتمہ کردیا ہے، اب ان کا معاملہ دوسرے کافروں کی طرح ہے۔ یہ سکھ ، پارسی، عیسائی اور ہندو کی طرح ہوچکے ہیں۔ نکاح وغیرہ کے مسائل حل ہوگئے۔ ہمارے ٹکٹ پر یہ ممبر نہیں بن سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ باقی مسائل کے بارہ میں ہم کو امید رکھنی چاہیے کہ حل ہوجائیں گے۔ میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ بعض خود غرض اور اقتدار پسند افراد کہتے پھرتے تھے کہ حکومت مرزائی ہوگئی ہے، مرزائی نواز ہے، یہ ٹال رہی ہے۔ میرے بھائی!یہ کافی ہے۔ باقی میں سمجھتا ہوں مرزائیت کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ کم از کم اس مسئلے کو ہم اپنی وجاہت کا مسئلہ نہیں بناسکتے۔ جیسے دینی ضرورت پیش آئے گی کریں گے۔ اللہ تعالی توفیق بخشے۔
- حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ (سربراہ ندوۃ العلماء لکھنؤ)
دنیا کے مسلمانوںکو عموما اور اس تحتی براعظم کے مسلمانوں کو خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے اس فیصلہ سے جو مسرت ہوئی اس کو بہت طریقہ پر اس شعر کے ذریعہ ادا کیا جاسکتا ہے جو ایک شاعر نے بیت المقد س کی فتح پر اپنے اس قصیدہ میں کہا تھا جو صلاح الدین ایوبیؒ کی خدمت میں پیش کیا تھا
ہذا الذی کانت الأیام منتظرا
فلیوف للہ أقوام بما نذروا
یہ وہ مبارک موقع ہے جس کا زمانہ عرصہ دراز سے منتظر تھا، اب لوگ اپنی وہ منتیں پوری کریں جو انہوں نے اس وقت کے لیے مان رکھی تھیں۔اس ایک فیصلہ نے افہام و تفہیم اور اطمینان قلب کی وہ خدمت انجام دی، جو علماء کی سینکڑوں تصنیفات اور ہزاروں تقریریں نہ انجام دے سکتیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام اور تبلیغ اسلام کے نام سے ’’احمدیت‘‘کی تبلیغ کا جو کام کیا جاتا تھا، وہ بے اثر اور بے بنیاد ہوگیا۔
- مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ (بانی جماعت اسلامی، پاکستان)
آپ کا عنایت نامہ ملا جس میں آپ نے قادیانی مسئلے سے متعلق چند سوالات دریافت کیے ہیں۔ آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ قادیانی مسئلے کے حل پر آپ کے احساسات کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس مسئلے کے حل سے آپ کی مراد قومی اسمبلی کا فیصلہ ہے۔ بلاشبہ اسمبلی اور حکومت کا یہ فیصلہ نہایت مستحسن اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسرت انگیز ہے اور اس پر ہم جتنی بھی خوشی منائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ،بالکل بجا ہوگالیکن ہماری حکومت ، نیشنل اسمبلی اور عام المسلمین کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری اب ختم ہوچکی ہے اور اس فیصلے سے قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پہلا قدم ہے جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا ہے اور ابھی تک بہت سے ضروری اقدامات ایسے باقی ہیں جن کے بغیر یہ قضیہ جوں کا توں باقی رہے گا بلکہ خدشہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا نخواستہ مزید پیچیدگیاں نہ پیدا ہوجائیںاور ہم اس اہم فیصلہ کے فوائد سے محروم نہ ہوجائیں۔
- علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ(خلیفہ حضرت تھانویؒو شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ ٹنڈو اللہ یار)
قادیانی مسئلہ کا جو حل وزیر اعظم پاکستان اور ان کی کابینہ نے کیا ہے۔ میں نے اس پر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو دلی مبارک باد دی ہے کہ یہ فیصلہ شریعت کے مطابق اور عام اہل اسلام کے جذبات کے موافق ہے۔ (جزاکم اﷲخیر الجزا) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد حکومت کا فرض ہے کہ ان کو کلیدی عہدوں سے الگ کریں اور فوج پاکستان سے بالکل الگ کریں کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مذہب میں جہاد منسوخ ہوگیا ہے۔ اس کے ماننے والوں میں جذبہ جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کو ان کے ساتھ اسلامی تعلقات رکھنے نہ چاہیے۔ جو خود قادیانی بنا ہے وہ مرتد ہے جس کو تین دن کی مہلت دے کر قتل کردینا حکومت کا فرض ہے اور جو خود مرتد نہیں ہوا بلکہ مرتد کی اولاد ہے وہ اگر دوسروں کو مرتد بناتا ہے اس کی بھی یہی سزا ہے اور جو مرتد نہ بناتا ہو اس سے اسلامی تعلقات نہ رکھے جائیں۔اور جو قادیانی توبہ کرنا چاہے اس کی توبہ قبول کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر مرتد مانے اسی طرح جو اس کو نبی کہتے ہیں ان کو بھی کافر و مرتد مانے۔
- شاعر اسلام ابوالاثر حفیظ جالندھریؒ (معروف ادیب، شاعر اور شاہ نامہ اسلام کے مرتب)
الحق کا شمارہ ستمبر ملا، مطالعہ میں آیا، آپ کا مکتوب بھی ملا، چونکہ جواب طلب ہے اس لئے تعمیل کررہا ہوں۔ آپ کے مکتوب میں چند اہم سوالات ہیں جن کا تعلق قادیانی مسئلہ کے اس حل کے بارے میں ہے جو ۷ ستمبر کی شام اسلامی پاکستان کی قانون اسمبلی میں سے منتخبہ خاص کمیٹی کی سفارش پر متفقہ قرارداد کی صورت میں منظور کیا گیا اور اس کا اعلان موجودہ عوامی حکومت کے محترم وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے فرمایا اور ایسا ہے کہ اب فتنہ قادیان پاکستان ہی نہیں پوری دنیائے اسلام کو تباہ و برباد کرانے کے لیے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر جو چاہے گا کرے گا۔
سرزمین ِپاکستان کے سینے میں جھنڈا گاڑے ہوئے اطمینا ن سے رہتے سہتے یہودیت کے اصل ہراول دونوں گروہ لاہوری ہوں یا ربواہی ، کیا اپنے مقاصد سے باز آجائیں گے۔آپ کے پاس اب کون سا حربہ ہے جو ان کے حربوں کے لیے آپ استعمال فرمائیں گے؟آپ مطمئن ہوگئے۔ ملت کو آپ نے مطمئن بنادیا۔ آپ کی نیت درست ہے۔ بجا ہے لیکن
سخن شناس نئی دلبرا
خطا ایں جا است
- مولانا ماہر القادری ؒ(ادیب، نقاد، شاعر اور ماہنامہ فاران کراچی کے مدیر اعلیٰ)
اکتوبر کے فاران کا اداریہ (نقش اول)میرے احساسات کا آئینہ دار اور میرے جذبات و تاثرات کا ترجمان ہے۔ اس مسئلہ کے حل ہوجانے سے ملک بہت بڑے بحران( CRISIS)سے محفوظ ہوگیا۔ ورنہ ختم نبوت کے مسئلہ میں مسلمانوں کے جذبات آتشیں ہوگئے تھے اور وہ دستوری طور پر اس مسئلہ کے معلق ہونے سے تنگ آچکے تھے۔ ارباب اقتدار کا یہ حال ہے کہ وہ اس مسئلہ کا کریڈٹ بھی لینا چاہتے ہیں اور اس کا ذکر بھی انہیں زیادہ پسند نہیں ہے۔ تیر از کمان رفتہ والا معاملہ ہے۔ قادیانی فتنہ کے دینی اور سیاسی اثرات ملک و بیرون ملک پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ اقلیتوں کے تحفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا مسلمانوں کی ذمہ داری اس فیصلہ پر ختم ہوگئی یا اس فتنہ کے مہلک اثرات کا تعاقب و احتساب جاری رکھنا ہوگا؟
- مولانا عبدالقدوس ہاشمی (نامور محقق و مصنف، ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات اسلامیہ، اسلام آباد)
قادیانی مسئلہ کو جس طرح اسمبلی نے حل کیا ہے وہ ہر آئینہ قابل ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کے لیے سعی فرمائی ہے۔ علمائے کرام اور دین دار مسلمان تو ابتدائے قادیانیت ہی سے ان لوگوں کو دین و دنیا دونوں کے لیے عظیم خطرہ قرار دے کر ان کو خارج از دائرہ اسلام کہتے چلے آئے تھے۔ شکر ہے کہ دیگر ارکان ِاسمبلی کو بھی خداوند تعالی نے حق کی طرف رہنمائی فرمائی۔ میں نے اسمبلی کا فیصلہ سن کر سجد ہ شکر ادا کیا۔
قادیانیوں نے دشمنان اسلام کی حمایت اور اعانت سے ساری دنیا تو نہیں مگر بہت سے ملکوں میں اپنے اثرات کا زہر پھیلایا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہم بھی اس زہر کا تریاق لے کر مختلف ملکوں میں پھیل جائیں اور ان کے سیاسی اور دینی زہر کا مقابلہ کریں۔ میرے خیال میں کرنے کا یہ ایک ضروری کام ہے۔ افریقہ کے دو ملکوں کو اس تریاق کی شدید ضرورت ہے۔ ایک نائیجیریا اور دوسرا مشرقی افریقہ۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا کے دو ممالک ملیشیا اور انڈونیشیا کی طرف فوری توجہ کی شدید ضرورت ہے۔
- محترم ڈاکٹر سید عبداللہؒ (صدر شعبہ دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، نامور دانشورو ادیب)
قادیانیوں کے بارے میں اقلیتی فیصلہ ہوچکا ہے، اس طرح علماء کی وہ جد و جہد کامیاب ہوئی جس کیلئے وہ تقریباً ایک سو سال بھر پور لڑائی لڑتے رہے اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ تنہا لڑتے رہے۔میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ لڑائی تنہا علما نے لڑی تو بالکل حقیقت بیان کررہا ہوں، علماء کے علاوہ جو طبقے یہاں موجود ہیں ان کی بہت سی تحریریں بطور شہادت پیش کی جاسکتی ہیں کہ ان کا نقطہ نظر بالعموم علماء کے موقف کے خلاف اور قادیانیوں کے حق میں رہا ہے اور اس میں بڑے بڑے اکابر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
- مولانا محمد اشرفؒ (خلیفہ مجاز حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ، صدر شعبہ عربی، اسلامیہ کالج، پشاور)
قانون کتنا اچھا اور درست ہو جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے، اس کے ثمرات سے متمتع نہیں ہوا جاسکتا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ موجودہ فیصلہ کو الفاظ و معنی اور اس کی آئینی روح کے مطابق عملی جامہ پہنایا جائے اور اس ضمن میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ کم از کم مندرجہ ذیل باتوں پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔
(۱) پاکستان کی نظریاتی مسلم مملکت کے جملہ اہم عہدوں سے قادیانیوں کو برطرف کیا جائے۔
(۲) ان کے لٹریچر کی ان جملہ کتابوں، رسائل اور عبارات کو ضبط کیا جائے اور ان کی اشاعت پر پابندی لگادی جائے جن میں انبیاؑاور شعائر اسلام کی ہتک کی گئی ہے یا قرآن کے الفاظ و معنی میں تحریف یا ختم نبوت کی من مانی تشریح کی گئی ہو۔
(۳) نیشنل اسمبلی کی قادیانی مسئلہ پر کاروائی کو منضبط کر کے شائع کیا جائے۔ خصوصاً اسمبلی کی قرارداد نمبر۲ کا ضمیمہ ملت اسلامیہ کا موقف کتاب کو سرکاری طور پر عربی، انگریزی اور اردو میں شائع کرکے مینر رپورٹ کی طرح تمام دنیا میں پھیلایا جائے اور سفارت خانوں میں ان کی نقول بھیجی جائیں تاکہ فیصلہ کی حقانیت عالم پر ظاہر ہو۔
(۴) قادیانیوں کا اندراج مردم شماری شناختی کارڈوں، پاسپورٹوں، ملازمت اور دیگر جملہ سرکاری کاغذات میں جہاں مذہب کا خانہ ہو، غیر مسلم کی حیثیت سے کیا جائے۔ اگر اس سلسلہ میں وہ غلط بیانی سے کام لیں اور بعد میں اس کا غلط ہونا معلوم ہو تو اسے قابل سزا جرم قرار دیا جائے جو پاسپورٹ کی دائمی ضبطی ، ملازمت وغیرہ سے اخراج وغیرہ کی صورت میں ہو۔
- مولانا قاضی عبدالکریم صاحب ؒ (تلمیذ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مہتمم نجم المدارس۔ کلاچی)
الف) اس میں مسلمانوں کی شان دار کامیابی اور ارتداد و مرزائیت کی ذلیل شکست تھی۔
ب) اس لیے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ایمانی اور اسلامی مطالبہ میں ایسی صریح اور واضح کامیابی کی مثال موجود نہیں تھی۔
ج) ماحول کو دیکھتے ہوئے اور خود اپنی اور قوم کے ماظہر منہا و مابطن معاصی مظالم اور آثام کی تاریکیوں میں کبھی اپنے گناہ بھرے کانوں کو اور نہ ہی معاصی آلود آنکھوں کو اس قابل سمجھا کہ وہ عزت ِدین کی ایسی سامعہ نواز خبر سن سکیں گے یا اعزاز ِاسلام کا ایسا پرلطف منظر دیکھ سکیں گے۔ سبحان الحی الکریم
د) اور خاص طور پر اس لیے کہ اگر فیصلہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اس کے برعکس ہوتا تو ہزاروں نہیں لاکھوں دین سے ناواقف لکھے پڑھے پاکستانیوں کا ایمان متزلزل ہوجاتا۔ وہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے کفر و ارتداد میں متردد ہوتے اور دنیوی مفاد حاصل کرنے یا دنیوی نقصانات سے بچنے کی خاطر حکومت کے ہاں میں ہاں ملاتے اور دنیا بھر کے علماء و فضلاء کے اجماع کے خلاف مرزائیوں کو مسلمان کہنے کی ناروا جسارت کرتے اور اپنا ایمان کھو بیٹھتے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ اس فیصلہ سے سب کے ایمان بچ گئے۔
- مولانا محمد شریف جالندھریؒ (ناظم مرکزی دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان)
فتنہ مرزائیت امت ِمسلمہ کے لیے فتنہ سودا تھا اور ہے۔مرزائیت نے دشمن اسلام قوتوں کا آلہ کار بن کرعالم ِاسلام کے لیے مشکلات پیدا کیں اور اغیار کے لیے خوشی و انبساط کا سامان پیدا کیا۔ ۷؍ستمبر کے فیصلہ نے اس فتنہ کی کمر توڑ دی لیکن ابھی بہت کام باقی ہے، جو تمام مسلمان فرقوں کے اتحاد و اتفاق سے ہی انجام پذیر ہوسکتا ہے۔ مجلس عمل کا قائم رہنا اس کی تنظیم کا مضبوط سے مضبوط تر ہونا نہ صرف مرزائیت کے سیاہ فتنہ کی سرکوبی کے لیے ضروری ہے بلکہ وطن عزیز میں اسلامی اقدار کے احیا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اگر خدانخواستہ اراکین مجلس عمل اپنے اپنے فرقوں کی تنگ ناں میں چلے گئے۔ درخت کی جڑوں کو سیراب کرنے کی بجائے اس کے پتوں پر پانی کے چھڑکا میں مصروف ہوگئے تو نہ صرف ۷ستمبر کا فیصلہ محض کاغذی فیصلہ ہوگا بلکہ دشمن ملک و ملت قوتیں اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر تمام کام پر پانی پھیردیں گی۔
- حضرت مولانا امین احسن اصلاحی ؒ (ماہنامہ میثاق، لاہور)
میرے نزدیک قادیانی اقلیت کے حقوق کے سزاوار تو نہیں تھے لیکن ہمارے ملک میں شرعی قوانین نافذ نہیں ہیں اس وجہ سے بالفعل مسئلہ کا ممکنہ حل یہی تھا۔ یہ نرم سے نرم سلوک ہے، جو ان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگر قادیانیوں نے اس کی قدر کی تو وہ اپنے لیے ملک میں امن کی زندگی کی گنجائش پیدا کرلیں گے اور اگر اس رعایت سے انہوں نے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ قادیانی اس رعایت سے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کریں گے اور خاصا اندیشہ اس امر کا بھی موجودہے کہ بعض غلط اندیش لوگ اقلیت کے نام پر ان کی سرپرستی کریں۔ ان خطروں کے سد باب کی واحد شکل یہی ہے کہ مسلمان برابر بیدار رہیں۔ اگر مسلمانوں نے اس معاملے میں غفلت کی تو اب قادیانیوں کو جو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اس کی آڑ میں وہ ہمارے مذہب اور ملک دونوں کو پہلے کی نسبت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
- مولانا محمد طاسین صاحب ؒ (ناظم مجلس علمی کراچی )
شکر الٰہی کے جذبہ سے معمور دل سے اس نمایاں اور خاطر خواہ کامیابی پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں جو قادیانی مسئلہ کے متعلق اللہ تعالی نے علمائے حق کو عطا فرمائی ہے۔ آپ اس تبریک و تہینت کے اس وجہ سے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ نے اس میدان میں ہر طریقہ سے غیر معمولی جد و جہد فرمائی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس مبارک مہم کے دور تازہ کا آغاز آپ کی ان جرت مندانہ تحریروں سے ہوا ہے جو کچھ عرصہ پہلے ماہنامہ’’ الحق‘‘ میں منظر عام پر آئیں جبکہ ہرطرف عام طور پر سکوت تھا۔
- مولانا عبدالحلیم زروبی ؒ (استاذ حدیث و تفسیر دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک)
الحمد للہ کہ قومی اسمبلی نے کافی غور و تامل کے بعد اس مسئلہ کا ایسا صحیح حل پیش کیا کہ ایک طرف تو دنیا کے مسلمانوں کے شکریہ کے مستحق ہوئے اور ختم نبوت کیساتھ صحیح شغف اور سرور کائناتؐ کے ساتھ قلبی محبت کا ثبوت دیا اور دوسری طرف ان لوگوں کے خیالات فاسدہ اور شبہات باطلہ کو ختم کردیاجو کہ اس تحریک کو احمقانہ سیاست اور مولویانہ ہٹ دھرمی یا کفر سازی کا نتیجہ سمجھتے تھے۔
- مولانا محمد فرید صاحب ؒ (مفتی و مدرس دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک)
قادیانی فیصلہ سے قادیانیوں کا خارج از اسلام ہونا تمام عوام اور تعلیم یافتہ طبقہ پر روز روشن کی طرح واضح ہوگیا۔ اس سے ان کے حوصلے پست ہوگئے اور مجبورا وہ اب اپنے ارادوں میں ترمیم کریں گے۔ اس فیصلہ سے ان کی تبلیغ و اشاعت اور عوام کو پھسلانے کے ہتھکنڈے کافی حد تک بے کار اور ختم ہوجائیں گے۔یہ مسئلہ اگرچہ کاغذی طور پر حل ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر ابھی تک حل شدہ نہیں ہے حتی کہ قادیانیوں نے بھی ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس فیصلہ کو نافذ کروائیں ورنہ دنیا و آخرت میں انتقام کے خطرات درپیش ہیں۔قادیانیوں کے اثرات ختم کرنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس فیصلہ کی ہرزبان اور ہر حکومت میں اشاعت کی جائے اور ہر مسلمان حکومت ان کو قانونی طور سے غیر مسلم قرار دے۔ اور اسلامی ممالک کے مشترکہ وفود غیر مسلم حکومتوں کو خبردار کریں اور انہیں مسلمانوں سے جداگانہ حقوق دینے کا مطالبہ کریں۔
- ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب ؒ (پیرس ،فرانس)
مجھے قادیانیت سے کبھی اتنی بھی دلچسپی نہ ہوئی کہ اس کے متعلق کوئی کتاب یا مضمون ہی پڑھوں، چونکہ دین دار لوگوں نے اس کے خلاف تن من دھن سے کام کیا ہے۔ اس لیے اچھا ہی ہوگا خدا انہیں اجر عظیم دے ۔
- مولانا منظور احمد چینوٹی ؒ (ناظم ادارہ دعوت و ارشاد، چینوٹ)
حقیقت یہ ہے کہ زندگی بھر کی تمام خوشیاں بھی اگر جمع کردی جائیں تو وہ اس خوشی کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جو خوشی سات ستمبر کو قادیانیوں کے متعلق فیصلہ سے حاصل ہوئی ہے۔ راقم خوشی کے ان احساسات کو اپنے الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ قادیانیوں کے متعلق تاریخی فیصلہ اس صدی کا اہم قضیہ اور عظیم کارنامہ شمار ہوگا۔