عقیدئہ ختم نبوتؐ عقیدہ رسالتؐ کی تکمیل

ڈاکٹر بشیر احمد رند
شعبہ اسلامک کلچر، سندھ یونیورسٹی جامشورو

نبوت ورسالت پر ایمان رکھنے کی تکمیل ختم نبوت پر ایمان رکھنے سے ہوتی ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا، اس لیے عقیدہ ختم نبوت کو سمجھنا اور اس پر ایمان لانا ایک مومن کے لیے نہایت اہم اور بہت ضروری ہے۔

ختمِ نبوت کا مطلب

’’ختم‘‘ کے لغوی معنی ہیں مُہر لگانا،بند کرنا،اختتام تک پہنچانا،اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہوجانا۔(ابن منظور:لسان العرب، فیروزآبادی: القاموس المحیط، شرتونی: اقرب الموارد، مادہ ختم، فیروز الدین: فیروز اللغات ص ۱۴۶)اورختمِ نبوت کا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا،وہ حضرت محمّدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، اس کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے، اس کے بعد کوئی دوسری الہامی کتاب نازل نہیں ہوگی اور یہ امت آخری امت ہے،اس کے بعد کوئی اور امت نہیں آئے گی۔

عقیدہ ختمِ نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں

قرآن مجید میں ایک سو سے زائد آیات میں عقیدہ ختمِ نبوت کو بیان کیا گیا ہے، جن میں سے کچھ حسبِ ذیل ہیں: حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَٰکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ(الاحزاب:۴۰)
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘

اس آیت میں واضح الفاظ میں یہ بات کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام آئے وہ کسی خاص قوم اور خاص خطے کے لیے آئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری انسانیت کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے عام ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا (سبا:۶۸)

’’ (اے حبیب!) ہم نے تمہیں پوری انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا(رسول) بنا کر بھیجا ہے‘‘

اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں، آپ کسی خاص قوم یا خاص خطے یا خاص وقت کے لیے نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے بل کہ پوری انسانیت کے لیے اور قیامت تک کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

ایک اور آیت میں اسی بات کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا:

وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ (الانعام: ۱۹)

’’(آپ یہ اعلان فرمادیں کہ) وحی کے ذریعے اس قرآن کو میری طرف بھیجا گیا ہے تا کہ اسکے ذریعے میں تمہیں خبردار کروں اور جن جن تک یہ پہنچے (انہیں خبردار کروں)‘‘

قرآن مجید آج دنیا کے چپے چپے تک پہنچ چکا ہے لہٰذا جہاں جہاں تک قرآن مجید پہنچ چکا ہے ان سب کیلئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے تحت قیامت تک رہے گا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسالت ونبوت بھی قیامت تک رہے گی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۹)

’’بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘

اس کا مطلب اب قیامت تک قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام محفوظ رہے گا اور لوگوں کے پاس موجود ہوگا اور آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی رہیں گے، کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے فرائض میں یہ بات بھی تھی کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی کتب و پیغامات کی تصدیق کریں اور بعد میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دیں، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیغمبر بن کر آتے ہیں تو اپنی قوم بنی اسرائیل کے سامنے واضح کرتے ہیں کہ میں تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور بعد میں آنے والے پیغمبر احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کو پیشگی بشارت دیتا ہوں، چنانچہ انکی بات کو اللہ تعالیٰ اس طرح نقل فرماتے ہیں:

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰیۃِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ (الصف:۹)

’’اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے(اپنی قوم سے) فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے، جن کا نام احمد ہے۔‘‘

عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آنے کے بعد صرف ایک ہی رسول کے آنے کی خبر دی اور اس کا نام بھی بتا دیا، اسکا مطلب اب صرف ایک ہی پیغمبر آنے والے ہیں، جن کا اسمِ گرامی احمد ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیںلیکن نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانِ اقدس سے آئندہ آنے والی پوری انسانیت کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں: قُلْ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (الاعراف:۱۵۸)’’اے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمادیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے‘‘

مطلب کہ اللہ کی اس کائنات میں جہاں جہاں انسانیت موجود ہوسکتی ہے، ان سب کے لیے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالمگیر اور دائمی ہے اور قیامت تک رہنے والی ہے۔ایک اور آیت میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ جس دین کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے کی گئی، اس کی تکمیل نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کی گئی ہے، چنانچہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے اجتماع حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا (المائدہ:۳)

’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کر لیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کیا‘‘

یہ آیت اس بات کی بشارت تھی کہ نبوت، جس کا مقصد دین کی عمارت کی تعمیر کرنا تھا، وہ  عمارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوچکی، اب اس کے اندر کسی اینٹ لگانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ کسی نبی کی آمد کا مقصد ایک خاص وقت کے لیے دیئے گئے احکام کو منسوخ کرنا یا تحریف شدہ دین کو درست اور اس کا احیاکرنا ہوتا ہے، جب آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کی تکمیل ہوگئی تو اب کسی اور پیغمبر کی کوئی ضرورت نہیں رہی، اس لیے کہ دین کی عمارت مکمل ہوچکی تو تکمیل دین در حقیقت ختم نبوت کا اعلان ہے۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ الہامی کتب اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونی والی کتاب کے بعد قیامت کا ذکر کیا ہے،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  آخری نبی اور اس کی کتاب آخری کتاب ہے، اسکے بعد قیامت ہے، اسی اثناء میں کوئی اور نبی آنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی اور کتاب نازل ہونے والی ہے: وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ (البقرہ:۴)’’اور(یہ کتاب ہدایت ہے ان لوگوں کیلئے ) جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ قیامت پر یقین رکھتے ہیں‘‘

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد اب قیامت ہی آئے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک اللہ کے پیغمبر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی پیغمبر آنے والا نہیں ہے۔

پھر ہمیں قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام سے ایک وعدہ لیا تھا کہ اگر آپ کے دور میں میرا ایک عظیم پیغمبر(حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) آجائے جو تمہاری تعلیمات کی تصدیق کرے تو تم تمام کے تمام اس پر ایمان لے آنا اور اس کی نصرت کرنا اور تمام انبیاء علیہم السلام نے یہ وعدہ فرما لیا تھا، چنانچہ قرآن مجید میں اس عہد ومیثاق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآء َکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَاقَالَ فَاشْہَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ(آل عمران:۸۱)

’’ اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ عظیم رسول جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور بہ ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور بہ ضرور اس کی مدد کرنا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بتاؤ کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا۔ فرمایاتو تم سب ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘

لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس امت سے اس قسم کا اقرار نہیں لیتے بلکہ اس امت کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اب تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہے اور ان کے بعد اپنے اولی الامر یعنی حکمرانوں اور مجتہدین ِ امت کی اطاعت کرنی ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے:

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء: ۵۹)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔‘‘

مولانا عبد اللہ معمار امرتسری اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل وفہم کا کوئی حصہ دیا ہے وہ ذرا غور کریں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی یا غیر تشریعی، ظلی یا بروزی نبی پیدا ہونے والا تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بجائے اولی الامر (حکمرانوں) کی اطاعت کے اس نبی کی اطاعت کا سبق دیا جاتا۔یہ عجب تماشا ہے کہ قرآن مجید لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کی طرف بلاتا ہے اور بعد میں آنے والے نبی کی اطاعت کا ذکر تک نہیں کرتا لہٰذا ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ظلی، بروزی یا کسی اور قسم کا (تشریعی، غیر تشریعی)نبی ہرگز ہرگز اس امت میں پیدا نہیں ہوگا۔ (اگر کوئی کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا ہوگا)‘‘ (عبد الحسیب انصاری، تحریک ختم نبوت میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا کردار، پی ایچ ڈی تھیسز، شعبہ اسلامک کلچر سندھ یونیورسٹی جامشورو، سال ۲۰۱۹، ص۱۸)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور پیغمبر کے آنے کا انتظار کرنا یا کسی اور پیغمبر کی اطاعت کرنا، بلکہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے کر ختمِ نبوت پر مہر ثبت کردی۔

ختمِ نبوت کا اعلان احادیث مبارکہ کی روشنی میں

قرآن مجید کی روشن آیات سے واضح طور پر ثابت ہوچکا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ونبی ہیں اور آپ کے بعد ہمیشہ کے لئے نبوت ورسالت کا دروازہ بند ہو چکا تو اس کے بعد احادیث مبارکہ کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے معلم، شارح اور مفسر تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان بڑے واضح اور صاف الفاظ میں فرمادیا تا کہ کسی بد نیت کے لیے یہ گنجائش باقی نہ رہے کہ وہ کسی بھی معنیٰ میں اپنے آپ کو نبی کہلائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے سلسلے میں سینکڑوں احادیث وارد ہیں، جن میں سے چند حسب ذیل ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان اس طرح فرمایا:

’’ بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء علیہم السلام کرتے تھے،جب کوئی نبی وفات پاجاتا تھا تو دوسرا نبی اس کا جا نشین ہوجاتا تھالیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ خلفاء آئیں گے‘‘ (صحیح بخاری، ح۳۴۵۵)

ایک روا یت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک عمارت بنائی اور بہت خوبصورت بناء مگر اُس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ اُس عمارت کے چاروں طرف پھرتے تھے اور حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ اس جگہ پر ایک اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟تو وہ اینٹ میں ہوں(میرے آنے سے نبوت کی عمارت مکمل ہو گئی)اور میں آخری نبی ہوں(جس کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آئیگا)‘‘ (صحیح بخاری:۳۵۳۴)

ایک اور روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون (صحیح مسلم :۱۱۶۷)

’’مجھے ساری مخلوق کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر ہی نبیوں کا سلسہ ختم کیا گیا ہے‘‘

یعنی نبوت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے بعد آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر ختم ہو گیا، اب نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا۔

اسی بات کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بھی فرمایا:

ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی بعدی (ترمذی:۲۲۷۲)

’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی‘‘

وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی (بخاری:۳۵۳۲)

’’میں وہ آخر میں آنے والا ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں‘‘

وانا آخرالانبیاء وانتم آخرالامم (سنن ابن ماجہ، ۴۰۷۷)

’’میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو‘‘

نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے خبردار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبین (سنن ابی داؤد:۴۲۵۲)

’’میری امت میں ۳۰ ایسے جھوٹے ہوں گے جن میں سے ہر ایک اپنے نبی ہونے کا دعوی کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں‘‘

ذکر کردہ آیات ِ کریمہ اور احادیثِ شریفہ سے واضح ہے کہ حضرت محمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور یہ امت آخری امت ہے،اب کوئی بھی نیا نبی نہیں آئیگا،اگر کوئی ایسا دعوی کرے تو وہ جھوٹا، مکار،فریبی اور دجال ہوگا۔

نثار احمد خان فتحی نے ابھی تک ایسے بائیس جھوٹے مدعیانِ نبوت کے نام گنوائے ہیں جن کے فتنے کو عالمگیر شہرت ملی، ان میں اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، سجاح بنت حارث، بیان بن سمعان، ابو طیب متنبی اور آخر میں مرزا غلام قادیانی شامل ہیں۔ (بائیس جھوٹے نبی، ملتان، عالمی مجلس ختمِ نبوت، ۱۹۷۷ء، ص۳)

حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہ ِ نبوت کو ختم کرنے کی عقلی وتاریخی وجوہات

حضرت محمّد کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہِ نبوت کو ختم کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام اپنی اپنی قوموں کی طرف نبی ہو کرآئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پوری انسانیت کے لیے عام اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے، اس لیے کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا نبی اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ یا تو پہلی نبی کی تعلیمات مِٹ چکی ہوتی تھیں یا ان میں تحریفات(تبدیلیاں) واقع ہوچکی ہوتی تھیں، اس لیے دوسرا نبی بھیج کر الاہی تعلیمات کا احیا کیا جاتا تھا، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مرکز قرآن مجید ہے جو اپنے اصلی الفاظ اور معانی سمیت محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا ان شاء اللہ، اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ بھی محفوظ چلی آرہی ہے، لہٰذا کسی نئے نبی کی کوئی ضرورت نہیں جو آکر خدائی تعلیمات کا احیا کرے۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات ان کے وقت کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اور ایک خاص وقت کے لیے ہوتی تھیں لہٰذا زمانہ اور اس کے تقاضے بدلنے کے بعد فروعی احکام میں تبدیلیاں آنا ناگزیر تھا، لہٰذا کوئی نیا پیغمبر بھیج کر اسے اس وقت کے تقاضوں کے مطابق احکامات دیے جاتے تھے، جبکہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی جامع، کامل اور ہمہ گیر کتاب اور شریعت دی گئی جو ہر دور کے تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے اور ایسے اصول، قواعد وضوابط بتاتی ہے کہ جن کو سامنے رکھ کر وقت کے مجتہدین اپنے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں، لہٰذا کسی نئے نبی یا نئی شریعت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایک اور وجہ بھی نظر آتی ہے اگر اسے وجہ شمار کیا جائے تو، وہ یہ ہے کہ ایک نبی کی مدد کے لیے اس کی زندگی میں دوسرے نبی کو بھیجا جاتا تھا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں اس کی مدد کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھیجا گیا تھا لیکن یہ صورتحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں نظر نہیں آتی، اس لیے کہ پہلے نبی کی مدد کے لیے دوسرے نبی کو اس کی زندگی میں بھیجا جاتا تھا۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کسی اور نبی کو نہیں بھیجا گیا تو بعد میں کیسے بھیجا جا سکتا ہے؟

 عقیدہ ختمِ نبوت پر اجماعِ امت

تمام صحابہ وتابعین، فقہا و مجتہدین اور ساری امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، ان کے بعد کوئی نبی کسی بھی معنیٰ ومفہوم میں نہیں آئے گا، تاریخی روایات گواہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد کچھ لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، ان سب دعویداروں اور ان کے ماننے والوں کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متفق ہوکر جہاد کیا،اس سلسلے میں مسیلمہ کذاب خاص طور پرقابلِ ذکر ہے،جسے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کافر اور ملت سے خارج قرار دیااور اس کے اور اس کے ماننے والوں کے خلاف جنگ کی۔اس لیے پوری امت میں آج تک اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی کسی بھی معنیٰ میں نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا، مکار، فریبی اور دجال شمار ہوگا۔

ایسے جھوٹوں اور مکاروں کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو بالاتفاق یہ بل اور قرارداد منظور کی کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ورسول ہیں، اس کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا یاجو اسے کسی بھی طرح نبی مانے گا اسے مسلمان تصور نہیں کیا جائے گابلکہ وہ غیرمسلم اقلیت شمار ہوگا۔

ہم اپنے وطنِ عزیز کے ان تمام اکابر علمائے کرام اور اراکین اسمبلی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے عقیدہ ختمِ نبوت پر مہر ثبت کرکے جھوٹوں اور مکاروں کا راستہ روکا اور جو اراکینِ اسمبلی حضرات اس دنیا سے رخصت فرما گئے ان کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مرحومین کی مغفرت فرمائے اور بلند درجات عطا فرمائے اور پہرہ داران عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت فرمائے( آمین)