قافلہ حق کے بیباک سپہ سالار و نڈر رہنماء حضرت مولانا حامد الحق حقانی کی مظلومانہ شہادت

حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی/مہمان اداریہ

قافلہ حق کے بیباک سپہ سالار و نڈر رہنماء حضرت مولانا حامد الحق حقانی کی مظلومانہ شہادت

حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی/مہمان اداریہ

ع ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
حیف صد حیف کہ ایک جید اور جواں سال عالمِ دین، ایک مخلص داعی، علومِ نبوت کے مبلغ، ایک تقویٰ دار متقی وپرہیزگار خطیب، قومی رہنما، ممتاز سیاست دان، منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین، وحدتِ ملت اور اتحادِ اُمت کے علمبردار، علم وعمل کی ہمہ خوبیوں سے آراستہ وپیراستہ قائد، شہیدِ ختمِ نبوت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے مشن کے امین وجانشین، درویشِ خدامست، مردِ قلندر حضرت مولانا حامد الحق حقانی، نائب مہتمم جامعہ حقانیہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۵ء کو ملت مسلمہ دینی مدارس، علماء و طلباء بالخصوص اور حقانیین کو یتیم چھوڑ کر خلعتِ خونِ شہادت پہن کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے( انا للہ و انا الیہ راجعون)

جن کے اُٹھتے ہی جبینِ حادثہ خود جھک گئی
ایک ساعت کے لئے نبض دو عالَم رُک گئی
اور
کوئی نالاں، کوئی گریاں، کوئی بَسمل ہوگیا
ان کے اُٹھتے ہی دگرگوں رنگِ محفل ہوگیا

جس مجلس علم وعمل اور محفلِ دعوتِ دین اور حقانیہ جیسے گلستانِ جنت سے داعیٔ اسلام، جواں سال مجاہد اور بے باک رہنما حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ جیسے پروانے اُٹھادیئے جائیں وہ محفل جمے یا اُجڑے کسی کو اس سے کیا غرض؟ شمع جلے یا بجھے کسی کو اس سے کیا واسطہ؟ چمن میں بہار اُترے یا خزاں بَرسے کسی کو کیا تعلق؟ گلستان میں ہُما رہے یا بوم بسے کسی کو اس سے کیا دلچسپی ؟ جب جانِ محفل نہ رہا تو ہنگامۂ محفل چہ معنیٰ؟ جب فروغِ شمع نہ رہا تو شمع کی لو سے کیا حاصل؟ جب خوشبوئے چمن اُڑ گئی تو سوکھے پھول پتوں کا کیا فائدہ؟ جب رنگِ گلستاں نہ رہا تو خالی گل بوٹے کس کام کے؟ مجاہد کبیر مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ ایک شخص نہیں، گلشنِ وطن کا ایک مہکتا گلاب تھا، جس کی خوشبو نے وطن کے بام ودر کو مہکا رکھا تھا، مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ ایک فرد نہیں اُفقِ پاکستان کا ایک آفتاب تھا جس کی عالم تاب کرنوں نے پورے ملک کو چمکا رکھا تھا، مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ جیسے لوگ نہ تو آئے دن پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی قدرت روز روز کسی کو منظرِ عام پر لاتی ہے۔ یہ لوگ خاص ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے، خاص آغوشوں میں پلتے، خاص بانہوں میں جھولتے، خاص ہاتھوں میں پرورش پاتے، خاص کندھوں پر کھیلتے، خاص نظروں میں رہتے، خاص وقتوں کے لئے تربیت دیئے جاتے اور خاص آدرشوں کی تکمیل کے لئے کسی قوم میں اُبھارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ سستے اور سہل نہیں ہوتے، ان کے لئے ملک کو برسوں گردش گرنی پڑتی ہے، آسمان خاک چھان کر انہیں ڈھونڈھتا ہے، ان موتیوں کے لئے صدف کو برسوں گہرے سمندروں میں مراقبہ کرنا پڑتا ہیٖ، ان دیدہ وروں کے لئے نرگس کو بہت آنسو بہانے پڑتے ہیں، یہ افراد زمین کا نمک ہوتے ہیں، یہ لاکھوں دعاؤں کا ثمر، ہزاروں آہوں کا اثر اور سینکڑوں ذہنوں کا عطر ہوتے ہیں، ان کی فکر سے دماغ جِلا پاتے، ان کے حسنِ عمل سے معاشرے اپنا اعتبار بڑھاتے اور ان کے وجود سے ملک اچھا نام کماتے ہیں مگر یہ کیا کہ ایک ساعت میں ملک کی عظمت مٹی میں رول دی گئی، ایک لمحے میں وطن کے اثاثے کو لٹا دیا گیا، ایک آن میں محفل کی جان نکال لی گئیف اور ایک شوخی میں دھرتی کی آبرو کھو دی گئی۔نوشہرہ ، بالخصوص اکوڑہ خٹک امن و امان اور سکون و راحت کا مرکز تھا، قیامِ امن وامان کا مسئلہ دشمن کے نشانے پر ہے، اکوڑہ خٹک جو دینی، علمی، جہادی، تبلیغی اور روحانی و مذہبی بہاروں کا دیس تھا ، نادیدہ قوتیں اسے چڑیلوں کی بستی بنانا چاہتے ہیں، جو پرائے بھی نگلتی رہے اور حق ہمسائے بھی کھاتی رہے۔
………………………
مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کے قتلِ ناحق پر یوںتأثر اُبھرتا ہے کہ گویا سرزمینِ وطن اہلِ خیر سے اُکتا چکی ہے، اس کا دامن غنڈوں، ٹھگوں، لفنگوں، لوفروں، ہتھ چھٹوں، دم کٹوں، سمگلروں اور لٹیروں کے لئے تو وسیع اور علمائِ حق ، مشائخِ عظام، شریفوں، دانشوروں، امن کے سفیروں، پڑھے لکھوں، داناؤں، دردمندوں، فداکاروں، معماروں، تیمارداروں، رضاکاروں، وفاداروںاور جانثاروں کے لئے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ آخرمولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کا قصور کیا تھا؟ صرف یہ کہ وہ طلباء کو قرآن وسنت کا سبق پڑھا رہے تھے، ملک و قوم اور ملت کو علماء، فضلاء، مدرسین، محققین، مصنّفین، مجاہدین اور مبلغین دے رہے تھے، ملک کے اصل ناسور کی نشاندہی کرتے رہتے تھے اور فقط یہ کہ وہ لٹیروں کو سیاسی پناہ دینے کے خلاف تھے۔
آخر ان کی خطا کیا تھی؟ بس یہ کہ قدرت نے ان کو غیرمتنازعہ شخصیت، بے پناہ عزت، بین الاقوامی شہرت اور درد کی دولت عطا کر رکھی تھی، ان کو تو خیر شہادت نصیب ہوگئی، قاتلوں کو بجزِ ندامت کے کیا ہاتھ آئے گا؟مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ اپنے عظیم والد مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی طرح ملک کے چند نامور افراد میں شامل تھے، جنہیں لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ سفید براق لباس پہنتے تھے، کسی نے ان کے دامن پر حسد، حرص، انتقام اور ہوس کا داغ نہیں دیکھا، وہ بہت اونچے قد کے آدمی تھی، کبھی جھوٹی اور سطحی بات نہیں کی، وہ عابد، زاہد، مدرس اور شفیق تھے، کبھی کسی حکمران کے باجگزار نہیں رہے، وہ شب زندہ دار تھے، کسی کے درباردار نہیںرہے۔
……………
مولانا حامد الحق شہیدؒ آزادیٔ ملت، غلبۂ دین، اعلاء کلمۃ اللہ، جہاد فی سبیل اللہ اور اہلِ اسلام میں ربط و تنظیم کے کام کو آپ نے شجاعت ودلیری، جذبۂ وفاداری، استقامت، میدانِ جہاد میں ثابت قدمی، عالی ہمتی اور بے مثال جفاکشی اور مستعدی سے انجام دیا کہ بہت جلد خداداد صلاحیت، بیدارمغزی، عالی دماغی، فراخ حوصلگی، کشادہ قلبی، وضع داری اور انساری، عالی ظرفی، سلیم الفہمی، جوہر شناسی اور بے رِیا و بے داغ کردار سے ملی اور ملکی تاریخ کا ایک روشن باب قائم کرگئے جس پر رہتی دنیا تک ملتِ اسلامیہ ناز کرتی رہے گی۔ آپؒ کی ساری زندگی رضاکارانہ اور سپاہیانہ تھی، آپ اغراض و مقاصد، مفادات اور حالات کے دھارے میں بہنے کے تصور سے بھی ناآشنا تھے۔
اہلِ وطن کو اپنی خیرمنانی چاہئے کہ کہیں قدرت اس قوم پر غضب کا کوڑا برسانے والی تو نہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو پہلے اپنے پاس بلالینا چاہتی ہے۔قتل ہونے اور سولی چڑھنے اور پھانسی پانے اور اُلٹے لٹکنے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کا کھربوں روپے کا سرمایہ باہر کے بنکوں میں جمع کرا رکھا ہے، جنہوں نے کھربوں روپے بنکوں کے قرضے دبا رکھے ہیں، جن کے پیٹ کی بھوک اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی چیز ان کی ہوس نہیں مٹاسکتی اور جن کی پیاس اس قدر بے قابو ہوچکی ہے کہ وہ بے گناہوں کے خون کے علاوہ بجھنے میں نہیں آرہی ، جن کا لیڈری کا جنون کناروں سے اس طرح اُچھلنے لگا ہے کہ وہ ہر قدآور کو راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، جن کی جھوٹی انا اس قدر فربہ ہوچکی ہے کہ وہ ہر سچی ادا کو مٹا دینا چاہتے ہیں، مساجد کو بلڈوز کردینے، طلبا اور طالبات پر آگ برساتے ، بم برسانے ،قرآنِ پاک جلانے اور نالے میں پھینک دینے میں انہیں کوئی باک نہیں، یہ غاصب، یہ نادہندے، یہ بھوکے، یہ پیاسے، یہ سیاسی مہاشے اور یہ جھوٹے آخر کس کام کے ہیں کہ دھرتی ان کا بوجھ اُٹھائے پھرے اور اپنے دامن میں بسائے رہے؟
……………………
شہید ناموسِ رسالت مولانا سمیع الحق ؒاور مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ نے اس دھرتی کا رزق آخر کتنا کھایا ہے؟ ایسے بندوں کا دانہ پانی کیوں اُٹھا لیا گیا؟ انہوں نے اس ملک کو مدارس دیئے، علماء دیئے ، مجاہدین دیئے، وہ بیدردی کے قتل کے مستحق کیوں ٹھہرے؟ انہوں نے ربع صدی احادیث کی خدمت کی،وہ کرائے کے قاتلوں کا نشانہ کیوں بنے؟ کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا اور خود انتقام کی زد میں کیوں آئے؟ انہوں نے عمر بھر فروغِ علم اور درسِ حدیث کی صورت میں روحانی بیماروں کے لئے دوا دارو کی گولیاں تقسیم کیں، وہ بارود کی گولیوں کا لقمہ کیوں بنے؟ وہ عمر بھر محبت بانٹتے رہے، وہ اس شقاوت کی لپیٹ میں کیوں آگئے؟ یہ حادثہ، المیہ اور یہ سانحہ اہلِ سیاست اور اہلِ حکومت دونوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کب تک سیاست کو منافقت اور حکومت کو مصلحت کا اسیر بنائے رکھیں گے؟
کیا سیاست اس کا نام ہے کہ صداقت کو قتل کر دیا جائے؟ حقانیت کو پاؤں تلے روند دیا جائے، کیا قیادت اسے کہتے ہیں کہ دیانت کو مٹا دیا جائے؟ کیا سیادت یہی ہے کہ دانش و حکمت کو موت دے دی جائے؟ کیا حکومت کا یہی مطلب ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے شرافت کا خون بہا دیا جائے؟ آخر یہ رنگ ڈھنگ کب تک رہے گا؟ملک کی معاشی حالت پہلے ہی پتلی ہے، وفاق کی صورت پہلے ہی بگڑی ہوئی ہے، سیاست پہلے ہی شامت بنی ہوئی ہے، معاشرت پہلے ہی نراجیت کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور نظم و نسق کی حالت پہلے ہی علیل و مقیم ہے، لے دے کر چند نیک نام او رعزت دار، مخلص علماء و مشائخ، دانشور اور ملک کے وفادار لوگ رہ گئے، اب سیاسی عفریت ان کے بھی پیچھے پڑ گئے ہیں، یہ لوگ بھی نہ رہے تو ملک کی جھولی میں باقی کیا بچے گا؟ شورش کاشمیریؒ نے بجا کہا تھا کہ :’’ چند بونے، چند مغنچے، چند طبلچیئے ، چند گوئیے، چند مالشئیے اور چند بالشتیے، ان کے زور پر ملک کتنا چل سکے گا؟‘‘
………………
بہرحال! وقت جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے اچھے انسان توں توں گھٹتے جا رہے ہیں، جگر مراد آبادیؒ برسوں پہلے مرثیہ کہہ چکے ہیں ع گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
نسلِ انسانی کی تعداد بڑھنے سے محفل ہستی کا اعتبار نہیں، اصل مسئلہ علمی و روحانی استعداد ہے، یہ نہ رہے تو ہجوم بھی بے رونقی اور تنہائی کا ازالہ نہیں کرپاتا۔بلاشبہ آج کتب خانے بہت ہیں مگر کتابوں کے دیوانے کتنے ہیں؟ پریشان کن سوال یہ ہے، مدرسہ و خانقاہ جینے کا قرینہ نہیں سکھاتے، کامل مدرس اور صاحبِ نگاہ آدابِ زندگی سے آشنا کرتے ہیں، نہ جانے کیسی ہواچل پڑی ہے کہ بزمِ سیاست سیاسی کارکنوں کے بجائے سیاسی لقوں سے آباد ہے، تدریس کی مسند ایک بار خالی ہوتی ہے تو برسوں پُر نہیں ہوتی، خانقاہیں بھی ایسے نشیمن بن گئی ہیں، جہاں عقابوں کے بجائے زاغوں کا بسیرا ہے، مکتب و مدرسے تو آئے روز کھل رہے ہیں لیکن فکر و آگہی اور علم وفن کے کواڑ ایک ایک کرکے بند ہو رہے ہیں۔مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کی صورت میں ایک ایسا عالمِ دین علماء سے اُٹھایا گیا ہے، جس کی جگہ سنبھالنے والا نہ تو اس وقت نظر آرہا ہے اور نہ حالات کے تیور دیکھ کر اُمید بندھتی ہے کہ یہ خلاء جلد پُر ہوگا۔
آج ہم جن مولانا سمیع الحق شہیدؒ، مولانا حامد الحق شہیدؒ اور ان کے نسبی وروحانی ابناء کی جدائی کی دہائی دینے والے ہیں، ان کے علم وفضل کا یہ عالم تھا کہ حدیث اور اسماء رجال جیسا مشکل فن ان کے ہاتھ میں پانی بن جاتا تھا، دو چار برس نہیں پوری نصف صدی مسند تدریس پر بسر کی، سینکڑوں علماء کے استاد ہونے کے باوجود انداز عمر بھر طالبعلمانہ رکھا۔ اُمت مسلمہ ‘ خاص کر عرب و عجم میں ان کی علمی و دینی حلقوں میں ان کی شہرت بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی تھی مگر وہ زندگی بھر صرف مدرس اور صرف مبلغ ہی بن کر رہے، ان کی تدریس کے ڈنکے بجتے رہے لیکن وہ ہمیشہ تشہیر سے بچتے رہے، یہ شیخ تھے استاذ العلماء مولانا سمیع الحق شہیدؒاور ان کے لختِ جگر مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ۔
ضلع نوشہرہ کے گاؤں ’’اکوڑہ خٹک‘‘ کے یہ نابغۂ روزگار اور عالم خوش کردار تقریبا ۵۷؍برس کی عمر میں اس حال میں دنیا سے رخصت کر دئیے گئے کہ ایک بڑے علمی و تدریسی حلقے کو نڈھال اور پُرملال کر گئے، دینی، علمی، تعلیمی، تدریسی حلقوں اور مدارس میں ایک ہلچل مچ گئی اور صفِ ماتم بچھ گئی، جنازے میں ملک بھر سے محبین، مخلصین، قافلوں درقافلوں کی صورت میں ایک ہجوم اکوڑہ خٹک میں اُمڈ آیا اور جنازہ تاریخی قرار پایا۔ سچ ہے جسے خدا اپنا بناتا ہے بندوں کے دل اس کی جانب پھیردیتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر نور سے بھرے اور ان کا حشر نوروالوں کے ساتھ کرے۔ (آمین)
………………
پندرہ دن ہوچکے ہیں مگر تعزیت کے لئے آنے والے حضرات کا سلسلہ رُکا نہیں۔ قافلے تھمے نہیں، محبتوں کے دریا سوکھے نہیں، وفود پر وفود آرہے ہیں۔ اہل اللہ کا ہجوم ہے۔ اصحابِ علم کا اژدہام ہے۔ اربابِ دانش کا مجمع ہے، صحافیوں کا جمگٹھا ہے، زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات تشریف لارہے ہیں، جن میں سیاستدان بھی ہیں، سرحدوں کے پاسداران بھی ہیں، سرکاری افسران بھی ہیں، قبائلی مشران بھی ہیں، بڑے بڑے تاجران بھی ہیں اور بیرونِ ممالک کے سفارتی نمائندگان بھی ہیں، سب شہید کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں، ان کی خاندانی نجابت کا اعتراف کر رہے ہیں، ان کے کارناموں کا اقرار کر رہے ہیں، ان کے حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملات کی شہادت دے رہے ہیں، شہید کے مشن کو آگے بڑھانے کے عزم کی تجدید کر رہے ہیں، صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔مولانا عبدالحق ؒ، ان کی اولاد و احفاد اور دارالعلوم حقانیہ کے علمی، سیاسی، تحقیقی، اصلاحی اور جہادی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں، کہیں آنکھوں میں آنسوؤں کی موتیاں ہیں تو کہیں زبانوں پر قرآن کے زمزمے ہیں، کہیں دلوں میں درد کی انگڑائیاں ہیں، کہیں ذہنوں میں یادوں کی پرچھائیاں ہیں، روزانہ نئی صفیں بن رہیں، حوصلوں کی نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، عزائم کے نئے مینار تعمیر ہو رہے ہیں، یہ فقط بزمِ تعزیت نہیں بلکہ قربانیوں کی تسلسل کی مشق کی رزمگاہ ہے۔ لواحقین و پسماندگان پر غلبۂ غم نہیں بلکہ ان کی جانب سے تجدید عزم ہے کہ شہید کے خون کے ہر قطرے سے انقلاب کی نمو ہوگی۔
مولانا راشد الحق سمیع صاحب عظیم بھائی کی جدائی کا گہرا گھاؤ لئے اپنے مشفق چچا حضرت مولانا انوار الحق صاحب ،بھتیجے مولانا عبدالحق ثانی اور اپنے بھائیوںمولانا اسامہ سمیع، مولانا خزیمہ سمیع، مولانا لقمان الحق ،مولانا عرفان الحق، مولانا سید محمد یوسف شاہ ، مولانا بلال الحق،صاحبزادہ محمد احمد، محمد عمر اور خاندان کے تمام ارکان اور حقانی برادری کے تمام افراد کے ساتھ تمام مہمانوں کا ان کے مراتب کے مطابق پرتپاک استقبال کر رہے ہیں، ان کو سنبھال رہے ہیں، ان کے تأثرات کو محفوظ کر رہے ہیں، ان کی آمد پر تشکر کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کو شایانِ شان انداز میں الوداع کہہ رہے ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ اتنا اندوہناک غم جھیلنے کے باوجود بھی مہمانوں کے ساتھ بشاشت اور شائستگی سے بیٹھتے ہیں اور خود مستحق تعزیت ہوتے ہوئے دوسروں کو تسلی دے رہے ہیں، ان کی ڈھارس باندھ رہے ہیں اور ان کے لئے تشفی واطمینان کے سائبان بن رہے ہیں اور انتہائی فراست، ہوشمندی اور سنجیدگی سے مبصرین کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں۔ آپ کی یہ وضعداری صرف ظاہری نہیں بلکہ یہ خاندانی تربیت کا تسلسل اور احباب کی محبت کی قدردانی اور متعلقین کی وفاؤں کے احترام کا فطری اور خلقی تقاضا ہے، آپ کی یہ مساعی دیکھ کر دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ ہمارے شیخ کا یہ کاروان ان شاء اللہ اسی رفتار اور معیار سے چلتا رہے گا …

دو چار اُمیدوں کے دیئے اب بھی ہیں روشن
ماضی کی حویلی ابھی ویران نہیں ہے