ملک شام :ایک اور مسلم ملک عالمی سازشوں کی زد میں
شام جو کبھی تہذیب وتمدن، علم و فن اور ثقافتی ورثے کا روشن استعارہ سمجھا جاتا تھا، آج کھنڈرات، خون اور عالمی سازشوں کی وجہ سے میدان جنگ بن چکا ہے۔ طویل خانہ جنگی کے بعد جب حالات کسی قدر بہتری کی طرف بڑھنے لگے تو ایک بار پھر ملک کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیلنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں اور یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت ہورہا ہے جس کی ڈوریں امریکہ و اسرائیل سے ہلائی جارہی ہیں،شام میں سُنی اکثریتی آبادی کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار میں لانے کی بجائے کچھ قوتوں نے ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جو نہ صرف شام کے داخلی استحکام کے خلاف تھے بلکہ ان کے ایجنڈے بھی مشکوک تھے۔ مختلف ادوار میںدہشت گردی سے وابستہ گروہوں اور دیگر باغی عناصر کو اسلحہ، مالی وسائل اور ابلاغیاتی حمایت فراہم کی گئی، تاکہ شام مسلسل ایک کمزور، منقسم اور تباہ حال ملک بنا رہے۔آج شام کی حکومت کے خلاف جاری نئی لہر دراصل اس سُنی قیادت کے خلاف ہے جو ملک کو متحد، خودمختار اور بیرونی اثرات سے آزاد رکھنا چاہتی ہے۔ اسرائیل کا کردار اس سارے تناظر میں سب سے زیادہ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ایک طرف وہ شام کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی حملے کرتا ہے، دوسری جانب باغی گروہوں کو خفیہ تعاون فراہم کر کے شام کی سلامتی کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال لیبیا سے مماثلت رکھتی ہے، جہاں مغربی مداخلت نے قذافی حکومت کو گرا کر ملک کو ایک مکمل ناکام ریاست میں تبدیل کر دیا۔ آج وہی کہانی شام میں دُہرائی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور طاقتور ممالک’’جمہوریت‘‘اور ’’حقوقِ انسانی‘‘کے نام پر ایک مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ملک کو مسلسل غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا اور بین الاقوامی برادری شام کی خودمختاری کا دفاع کرے، یکطرفہ حملوں اور بیرونی مداخلتوں کی مذمت کرے اور شام کے عوام کو یہ حق دے کہ وہ بغیر کسی عالمی دباؤ یا سازش کے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں،شام صرف ایک ملک نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے مزاحمت، خودداری اور قربانی کی ایک علامت ہے۔ اگر شام کو ختم کرنے کی یہ سازش کامیاب ہو گئی تو پھر کسی بھی اسلامی ملک کی سا لمیت محفوظ نہیں رہے گی۔
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ میرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار