قادیانی دجل اور ہمارے اکابرین کی جدوجہد کی تاریخ
مولانا عرفان الحق حقانی
مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ
قادیانی مذہب کی بنیاد اسلام دشمنی پر مبنی ہے ، اس لئے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے نبی کا آنا اسلامی عقائد کی بیخ کنی کرنا ہی ہے اور اسی غلط عقیدے پر اس باطل اقلیت کی اساس ہے۔ مذہب اسلام سے ہٹ کردیکھا جائے تو ان کی پاکستان دشمنی ، قیام پاکستان سے قبل ہی عیاں ہوگئی تھی۔ پاکستان بننے سے قبل جب اس کے خدوخال بھرے جارہے تھے تو گوردارس پور پاکستان کا حصہ تھا لیکن اعلان تقسیم ہند سے قبل مرزا غلام محمد کے بیٹے نامراد مرزا بشیر احمد نے اپنی علیحدہ ریاست بنانے کے چکر میں نقشہ تیار کیا اور اپنے آقاؤں(انگریزوں ) سے گٹھ جوڑ کی سعی لاحاصل کی، نتیجے میں انہیں ہتھے کچھ نہ پڑا تاہم اس علاقہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی نکلوادیا اس مکروہ کردار سے ان کی پاکستان دشمنی بھی طشت از بام ہوئی لیکن یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے پھر پاکستان پہنچ گئے اور اس اسلامی ریاست کو اپنی گندگی سے ناپاک کرنے کی کوشش شروع کی لیکن الحمدللہ علمائے اسلام نے ان کاراستہ روکنے کیلئے سرتن من دھن سب کچھ قربان کرنے کا عزم کیا۔ علماء کی تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء اور پھر ۱۹۷۴ء میں ہزاروں جانثاران اسلام نے قربانیاں دیں۔ تب ہی جاکر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس ناسور کو مسلمانوں کے نام پر زندقہ پھیلانے سے روک دیا گیا۔ا قلیت قراردینے کی عظیم کامیابی کے بعد بھی علمائے کرام آرام سے نہیں بیٹھے اس لئے کہ یہ مکروہ طبقہ ٓائین پاکستان کو ماننے کیلئے تیار نہ تھا اسی تناظر میں انہیں نکیل ڈالنے کیلئے ۱۹۸۴ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس پاس ہوا، اب ان پر مسلمانوں کے شعائر کے استعمال اور تبلیغ وغیرہ پر پابندی لگی ۔
ان پیش بندیوں، آئینی اور قانونی فیصلوں کے باوجود یہ طبقہ خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور مسلمانی کی آڑ میں زندقہ پھیلانے میں مصروف ہے جس پر پاکستان کے مسلمانوں میں ہمیشہ بے چینی اور اضطراب رہتا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، انٹرنیشنل ختم نبوت اور شبان ختم نبوت کی جماعتوں میں مصروف اراکین وزعماء لوگوں کو ان کی دورنگی اور منافقانہ کردارسے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آگاہ کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
موجودہ تشویش اور قادیانی ہرزہ سرائی کا خلاصہ یوں ہے کہ …
۷ ستمبر۱۹۷۴ء کا دن وہ یادگار زمانہ دن تھا جس کیلئے پاکستان بننے کے بعد ہزاروں ختم نبوت کے پروانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پارلیمنٹ میں ایک طویل جدوجہد کے بعد ہمارے اکابرین کی محنت رنگ لائی ۔ قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد پیش ہونے سے قبل دادا جان شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحقؒ نے اپنی طرف سے اکیلے بھی اس بد طینت گروہ کو کافر قرار دلوانے کی قرار داد جمع کر رکھی تھی، یہ سب کچھ قومی اسمبلی اور پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی زندگی کا بیشتر حصہ فتنوں کی سرکوبی میں صرف ہوا ۔ قادیانیت کے تعاقب میں انہوں نے بطور خاص اپنے بیٹے کی بیماری اور جنازہ تک بھلادیا۔ حضرت علامہ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو تو گویا اللہ تعالیٰ نے اسی کام کیلئے وقف کررکھا تھا ۔ حضرت العلامۃ سید انورشاہ کشمیریؒ ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب قرار دیتے تھے ۔ اسی بناء پر اپنے تلامذہ اور عقیدتمندوں کو اسی کام پر لگاتے گئے۔ حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی ؒ ،حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ،حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ ، حضرت مولانا ادریس کاندہلویؒ ،حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا سید یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا ظفرعلی خانؒ ،حضرت علامہ محمد اقبالؒ اسی سلسلے کا حصہ تھے۔ حضرت پیر مہرعلی شاہؒ اور حضرت مولانا عبدالستار خان نیازیؒ کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ۳۰ نہتے طلباء کا خون اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہونا اس معرکہ کو سرکرنے میں مقدمۃ الجیش ثابت ہوا ۔ اسی سے یہ تحریک تیز ہوئی ، واقعہ کی تحقیقاتی کمیٹی بنناپھر آگے احتجاج، جلسے ، جلوس ، تقاریر اور جذبات امڈ آئے۔ مجلس عمل متحرک ہوئی ، مولانا بنوریؒ کو امیر مقرر کیا گیا ۔ اسی تناظر میں مسئلہ کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ارباب اقتدار نے اسے اسمبلی میں زیر بحث لانے کامجبوراً فیصلہ کیا ۔
تھوڑا ماضی بعید میں جائیے تو تقسیم ہند کے تین سال بعد ۱۹۵۱ء میں داداجان مولانا عبدالحقؒ کی فرمائش پر حضرت بخاریؒ نے اکوڑہ خٹک تشریف لاکر یہاں ہزاروں لوگوں کے اجتماع میں قادیانیوں کا پردہ چاک کیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک کا گویا یہ ایک پیش خیمہ تھا۔ لاہور میں ایک ایمان سے سرشار دخترِ اسلام نے اپنے چار بیٹوں کو یکے بعد دیگرے قربان کرکے ختم نبوت کے لئے ایک تاریخ رقم کی ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یوں ہی قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے ناظم عمومی حضر ت مولانا مفتی محمودؒ نے مسلمانوں کی طر ف سے وہ تاریخی محضر نامہ پیش کیاجس کی اساس پر انگریز کی اس خود کاشت شجر خبیثہ قادیانیت کا کفر طشت ازبام ہوا۔ اس محضر نامے کو امام الشہداء ، شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سمیع الحقؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ نے اپنے اکابرین کی خواہش اور بھر پور اعتماد کی بناء پرہفتہ بھر کے مختصر وقت میں تیار کیا۔
قرار داد اقلیت اسمبلی میں پیش کرنے کی خدمات حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے ادا کیے ۔ قادیانی کفر تو عیاں تھا اور فارسی میں کہتے ہیں کہ عیاں را چہ بیاں لیکن پھر بھی عدالتی اور جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھ کر اسمبلی نے مرزا ناصرقادیانی کو صفائی اور جوابدہی کے مواقع دیے گئے لیکن وہ اپنی اور اپنے باطل پرست بڑوں کی کفردرکفرکی صفائی میں ناکام رہا۔ آخر کار متفقہ قرار داد پر اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی ۔ بعد میں سینٹ میں بھی اس عمل کو دہرایاگیا ۔ دونوں ایوانوں میں سے ایک ووٹ بھی قادیانیوں اور مرزائیوں کے حق میں نہیں آیا ، یہ سب کچھ ہماری پیدائش سے ڈیڑھ سال قبل کی باتیں ہیں، تاہم ساری روئیداد اور تفصیلات۔ ہم نے مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی مجلسوں میں بارہا سنے وہ فرماتے تھے کہ ابتداء میں جب ہم نے قادیانی فریب اور مذہبی ڈھونگ کو ظاہر کرنے کی کوشش اسمبلی میں شروع کی تو بہت سارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے ان قادیانیوں کی ظاہری شکل وصورت اور لبادے کو دیکھ کر کہا کہ یہ پگڑی اور داڑھی، جبہ ، ہاتھ میں تسبیح ، ظاہری خوبصورت وضع وقطع اور خوشبو کی مہک کے حامل مرزا ناصر وغیرہ قادیانی جنہیں دیکھ کر بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ ظالموں تم لوگ اس کو کافر کہتے ہو ۔ وہ بیچارے ان کی خبث باطن، عقائد کے بطلان سے بے خبر تھے لیکن جب دلائل اور جرح کی تفصیلات سامنے آگئے تو ان ہی اَپ ٹو ڈیٹ لوگوں نے کہا کہ انہیں جلدی کافر قرار دو ۔ یہ تو مسلمانی کے نام پر کالک اور داغ ہے ۔ یعنی ان کا ظاہر تو اتنا مرصع ، خوشنما اور پیچ درپیچ ہوتا ہے کہ ہرکسی کو اس کی سمجھ آسانی سے نہیں آتی ۔
ع پہنچی وہی پہ خاک جہا ںکی خمیرتھی
بعد میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اس قانون کو مؤثر بنانے کیلئے علمائے کرام نے انہی مساعی کو برابر جاری رکھا ۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس اسی سلسلہ کی مضبوط کڑی ہے جس میں عم محترم حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا بھی مؤثر کردار رہا۔
۷مارچ ۲۰۱۹ء کو قادیانی مبارک ثانی ودیگر ملزمان نے اپنے ممنوعہ ’’تفسیر صغیر‘‘ اور دیگر کتب نصرت کالج فارویمن میں ایک (قادیانی) ادارے کی تقریب میں تقسیم کیے جس کے خلاف حسن معاویہ نے پولیس کو درخواست دی جس کی ایف آئی آر طویل دوڑ دھوپ کے بعد ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر میں درج کی گئی۔ تین شقوں ، پنجاب قرآن بورڈ لاء ۲۹۵ بی اور ۲۹۸ سی کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
۷ جنوری ۲۰۲۳ء کو مبارک ثانی کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کی ضمانت اور گرفتاری کے خلاف مقدمہ دائرہوا ۔ ۱۶ نومبر کو ایڈیشنل سیشن جج اور پھر ۲۷ نومبر لاہور کے ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔ ملزم نے اس کے خلاف قادیانیوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست دی ۔ جس پر ۶ فروری ۲۰۲۴ء کو اس کی ضمانت منظور کرلی گئی۔ اس فیصلہ پر مسلمانان پاکستان اور علمائے کرام نے سیخ پاہوکر احتجاج شروع کی، توعدالت نے ۲۶ فروری کو دینی اداروں اور شخصیات سے معاونت طلب کی، علماء کے اعتراضات کے بعد اس فیصلے کی نظر ثانی پر درخواست جمع ہوئی ۔ ۲۹ مئی کو فیصلے پر تفصیلی اعتراضات تحریری وتقریری طور پر جمع ہوئے۔ ۲۴ جولائی کو نظر ثانی کا فیصلہ ہوا جوں کا توں صادر کیا گیا جس کی بدولت دینی حلقوں میں اضطراب شدت اختیار کرگیا۔
ملک بھر میں دینی جماعتوں نے احتجاجی مہم شروع کی۔ قومی اسمبلی میں مختلف پارٹیوں کے ارکان نے مسئلہ پر مباحثہ کا فریضہ نبھایا اور بالآخر سپیکر نے اسے قائمہ کمیٹی برائے انصاف کے سپر د کیا، ۱۵ ؍ اگست کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس ہوا۔ ۱۸ ، اگست کو سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس پر وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی طرف سے درخواست دائر ہوئی کہ فیصلے سے متنازعہ حصوں کو خارج کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے ۲۲ اگست کی تاریخ مقرر کی، توجسٹس فائز عیسیٰ کی نگرانی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے سفر پر ہونے کی وجہ سے ویڈیولنک کے ذریعہ ترکی سے دلائل دیے۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب، مفتی شیر محمد ، مولانا طیب قریشی اور ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے بھی ذاتی طور پر پیش ہوکر دلائل دیے۔ سپریم کورٹ نے اسی روز سماعت کے بعد ۶ فروری اور ۲۴ جولائی کے فیصلوں سے متنازعہ پیراگراف حذف کردیئے۔
واضح رہے کہ عدالت کے سابقہ فیصلے کے مذکورہ پیراگرافس میں قادیانیوں کو تبلیغ کی غیر مشروط اجازت دی گئی تھی جس پر ۲۹۸ سی پڑے گی کہ خود کو قادیانی مسلمان ظاہر کرکے تبلیغ نہیں کرسکتے، قادیانی خود کو اقلیت تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اس صورت میں وہ آئین کے مجرم ٹھہریں گے، اس فیصلے میں ہم جسٹس فائز عیسیٰ کی کردار کو تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم سے غلطی ہوتی ہے۔اس کی نشاندہی کیا کیجئے تاکہ اصلاح ہوسکے۔بہر صورت! عدالت کا یہ غلطی میں اصلاح کا فیصلہ قادیانی دجل وفریب کا راستہ مسدود کرنے میں آئندہ بھی ان شاء اللہ مددگار ہوگا۔