۷؍ستمبر ملت اسلامیہ کے دشمن کا خاتمہ
مولانا قاضی محمدسلیم حقانی
مہتمم نجم المدارس کلاچی
حامدا ًومصلیاً ومسلماً اما بعد
۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ امت مسلمہ کی تاریخ کا وہ تابناک دن ہے جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکروں اور باغیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور اس طرح ملت اسلامیہ کے جسم سے اس سرطان کو کاٹ کر علیحدہ کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے جسم کو محفوظ کردیا گیا۔ ۷؍ستمبر۲۰۲۴کو اس فیصلے کے پچاس سال مکمل ہوگئے، اس موقع پر پورے پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں اس فیصلے کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔جگہ جگہ کانفرنسیں ،سیمینارز،جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ ۷؍ستمبر کا دن ویسے ہی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہوا۔ اس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا علم بلند ہوا۔ آئینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا۔ اس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثاروں کی قربانیاں رنگ لائیں اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرخرو ہوئے۔
آج پچاس سال کے بعد ۷؍ ستمبر کی اہمیت اور قدرو قیمت اس لیے بھی دو چند ہوچکی ہے کہ ۷ستمبر ۱۹۷۴ء سے آج تک اس پچاس سال کے عرصے میں قادیانیوں اور ان کے سرپرستوں نے نہ صرف یہ کہ اس آئین کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس قانون کو ختم کرنے یا اس کو غیرموثر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، جھوٹی کہانیاں گھڑیں ، اپنی خود ساختہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹاگیا، اپنے حقوق کی پامالی کا رونا رویا، باطل و کفر کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جہاں سے انہیں ذرہ بھر امید تھی وہاں سے مدد طلب کی، دنیائے کفر نے بھی اپنا زور لگایا ۔پاکستان کی ہر حکومت کو ڈرایا، دھمکایا۔پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائیں مگر تمام تر زور لگانے اور ہر طرح کی کوشش کرنے ،گھٹیا اور پست ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود وہ اس قانون کو ختم کرنا تو درکنار ،اس میں معمولی سی تبدیلی کرنے پر بھی قادر نہ ہوسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ہے۔بقول مولانا محمد شفیع چترالی صاحب کہ
آج ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے قائدین اور مجاہدین کو خراج تحسین پیش کیا جارہاہے جن حضرات نے اسمبلی کے باہر عوامی تحریک کی قیادت کی اور جنہوں نے اسمبلی کے اندر دلائل کی جنگ لڑی ان سب کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ دلائل کی جنگ میں ایک تو وہ حضرات تھے جو اسمبلی کے اندر امت مسلمہ کا مؤقف پیش کررہے تھے اور دوسری جانب وہ حضرات علمائے کرام تھے جو رات دن ایک کرکے کتابوں سے اوراق کھنگال کھنگال کر اس مؤقف کے لیے دلائل تلاش کرکے پہنچاتے رہے ۔
ان دونوجوان علمائے کرام میں ایک تو وہ خوش نصیب ہیں جو آج پچاس سال کے بعد بھی الحمد للہ اپنی اس محنت کا ثمرہ دیکھنے کے لیے موجود ہیں یعنی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت بکاتہم العالیہ ،اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر صحت کے ساتھ قائم و دائم رکھے ۔
دوسرے میرے مربی و مشفق استاد امام الشہدا،شہید ناموس رسالت ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہید ؒتھے۔ وہ بھی آج جنت کے بالاخانوں سے گولڈن جوبلی کی کانفرنسوں اور اجتماعات کے برکیف مناظر دیکھ رہے ہوں گے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ختم نبوت کے پروانوں سے مخاطب ہوں گے کہ
ہمارا خون بھی شامل ہے تزین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
تو غنی از ہ ردو عالم من فقیر
روز محشر عذہائے من پذیر
ورحسابم را تو بینی ناگریز
ازنگاہِ مصطفی پنہاں بگیر