ملفوظاتِ امام لاہوریؒ’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میںمرتب: حافظ خرم شہزاد
نماز کے فائدے، نماز کا اصلی مقصد
’’نماز کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے مردہ قوم زندہ ہو سکتی ہے محکوم قوم حاکم بن سکتی ہے، آپس میں دست و گریبان ہونے والی جماعت شیر و شکر ہو کر رہ سکتی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ اس خدا پرست منظم جماعت کی صدا ایک سردار ایک مرکز ایک قبلہ ایک فعل ایک صدر ایک اور انصاری وحدتوں میں مقصود ایک خدائے قدوس وحدہ لا شریک لہ۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۳۲۹)
مرد قلندر مذہب کے پلیٹ فارم پر روئے خواص سے نوازا جانا
’’ہر ہرن کے ناف میں نافہ نہیں ہوتا، نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند(ہر سر منڈوانے والے کو قلندری عطا نہیں کی جاتی) مردِ قلندر وہ ہوتا ہے جو مذہب کے پلیٹ فارم پر آئے تو روئے خواص سے نوازا جائے، وہ ایک ہی ہوتا ہے اسی طرح کے مرد قلندر بہت کم ہوتے ہیں اور اخلاص ہی سے یہ حاصل ہوتا ہے اور یہ ہے کامیابی کا اصل گُر اور یہ اخلاص بھی صحبت ِصالحین سے حاصل ہوتا ہے، ہر عمل میں اصل شے اخلاص ہے خواہ وہ درس ہو یا تدریس، وعظ ہو یا تبلیغ، جہاد ہو یا قیام دینی مدارس۔ میں نے بھی مدرسۃ البنات پر تہترہزار روپے خرچ کیے، زمین خریدی مولانا شمس الحق صاحب یہاں مدرس تھے پھر میں نے یہ سلسلہ بند کر رکھا،خود مدرسہ نہیں بنایا میں نے کبھی چندہ نہیں مانگا،کیا میں بھیک مانگنے جاؤں؟اگر رقم نہ آئے تو کیا ہمارا خدا پر زور ہے؟ ہاں! لیکن ہمیں پکا یقین ہے کہ وہ دے گا۔ اچھا اگر نہ دیا تو توکل علی اللہ،پہلے یہ مدرسہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒکے زیر تحویل تھا اور مجھے حکم دیتے تھے کہ تو مدرسہ کے لیے چلا جائے گا پھر وہ سلسلہ لاہور آتے ہی خود ختم ہوا۔ اتنے مرید کہاں مولانا حسین احمد مدنیؒ کے تین ہزار ہوں گے تو میرے دو مرید ہیں جبکہ بڑی استانی تنخواہ نہیں لیتی اس پر زُہد کا رنگ چڑھا ہوا ہے اگر لیتی بھی ہیں تو بڑی تنخواہ استانیوں کی ساڑھے بارہ روپے ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۳۸۱ )
مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
’’مسئلہ ختم نبوت مسلمانوں اور مرزائیوں کے درمیان اس وقت سے مابہ النزاع چلا آ رہا ہے جب سے مرزا غلام احمد نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ مرزا بھی اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ختم نبوت کی تاویل آخر دم تک کرتے رہے تاکہ ان کی نبوت فیل نہ ہو جائے اور اسی دن سے حق پرست علمائے کرام بھی دلائل قطعیہ سے مرزا کی قصر نبوت کی بنیادیں کھوکھلی کرتے رہے چنانچہ وہ جلیل القدر علمائے کرام بھی پہنچے ان علمائے کرام میں سے مولاناا نور شاہ کشمیری ؒاور مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ (مدرس دارالعلوم دیوبند) اور پنجاب میں مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسریؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ایسے ہی حضرات علمائے کرام کی سعی جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں نے مرزائیت کے خلاف جہاد کو اپنے لیے صد صرف اور صد فخر سمجھا مگر اب پھر شجرئہ مرزائیت کی مرجھائی ہوئی شاخیں تر و تازہ ہو رہی ہیں۔ مرزائی جماعت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح مرزا کی ختم نبوت کے متعلق غلط تاویل کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور مرزا کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے خلف الرشید بننا چاہتے ہیں اسی طرح حق پرست علمائے کرام اگرچہ دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مزارات میں جنت کی ہوا کھا رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان حضرات کی مسند پر بھی رونق افروز ہونے والے خلف الرشید حضرت مولانا لال حسین صاحب اختر ؒاور دوسرے علمائے کرام موجود ہیں جو میدان مبارزت میں مرزائیوں کو پکار کر میدان میں لانے والے ہیں۔
مرزائیوں کے اخبار ’’الفضل‘‘ ۳ذی قعدہ۱۱۲۷ ھ (بمطابق)۲۶جولائی۱۹۵۲ء کے صفحہ نمبر۴ پر مولوی ابو العطاء صاحب (فاضل پرنسپل جامع احمدیہ) نے مجھے چیلنج دیا ہے اور میرے نزدیک اس بارے میں مولوی صاحب کو چیلنج دیا جا سکتا ہے، مگر وہ چودہویں صدی سے پہلے کے کسی کا مستند قول پیش کریں جس نے کہا ہو کہ خاتم کے معنی مہر کرنا غلط ہے۔
پہلا جواب: غالباً مولوی صاحب موصوف نے فن مناظرہ کی کتاب’’رشیدیہ‘‘ جو داخل درس نصاب ہے، وہ نہیں پڑھی ہوگی تو ورنہ اس قسم کا سوال مجھ سے ہرگز نہ کرتے۔ فن مناظرہ کا یہ قاعدہ ہے کہ مثبت (مدعیٰ کو ثابت کرنے والے) کو ثبوت دینا ضروری ہے نہ کہ نافی(نفی کرنے والے) کو، مولوی صاحب کو یہ ثبوت دینا چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا فلاں فلاں مفسرین حضرات نے خاتم النبیین کے یہی معنی کیے ہیں جو مرزا کرتے ہیں کہ آئندہ نبوت کا دروازہ کھل گیا ہے تاکہ آپ نبیوں کے شہنشاہ بن جائیں۔
دوسرا جواب: مسلمانوں کی تائید میں آٹھ مفسرین
اس سے پہلے میں ثابت کر چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ اب آٹھ مقتدر مفسرین حضرات کے حوالے ملاحظہ فرمائیے کہ وہ بھی ہماری تائید فرما رہے ہیں۔
(۱) الجواھر فی تفسیر القرآن: وخاتم النبیین فھوآخرھم الذی ختم (جلد۶۱،ص۲۶)
’’پس وہ آخری پیغمبر ہے جس نے سب پیغمبروں کو ختم کر دیا یعنی سلسلہ نبوت کو نئے نبی کے لیے ختم کر دیا۔‘‘
(۲) بیضاوی شریف: واخرالذی ختمھم’’اور آپ سب سے آخری پیغمبر ہیں، آپ نے سب پیغمبروں کو ختم کر دیا۔‘‘
(۳) روح البیان جلد رابع،ص:۷۸ وکان آخرھم الذی ختموا بہ’’اور آپ ان پیغمبروں میں سے سب سے آخری پیغمبر ہیں جس کے آنے سے پیغمبروں کے سلسلہ کو ختم کر دیا۔‘‘
(۴) تفسیر خازن: وخاتم النبیین ختم اللہ بہ النبوۃ فلا نبوۃ بعدہ ای ولا معہ۔’’اللہ نے آپ کے
تشریف لانے سے نبوت کو ختم کر دیا، اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور نہ آپ کے
وقت میں کوئی نبی ہو سکتا ہے۔‘‘
(۵) تفسیر ابن جریر جلد نمبر۱ ۲:وخاتم النبیین الذین ختم النبوۃ فطبع علیھم ولا تفتح لاحد بعدہ الی قیام الساعۃ۔’’آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے نبوت کو ختم کر دیا ہے پس نبوت پر مہر لگا دی گئی، اس لیے نبوت کا دروازہ آپ کے بعد قیامت تک کسی پر کھولا نہیں جائے گا۔‘‘
(۶) روح المعانی جلد۲۲:والمراد بکونہ الصلوۃ والسلام خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحلیہ علیہ الصلوۃ والسلام بھا فی ھذہ النشاۃ۔ ’’آپ کے خاتم النبیین ہونے کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کے زیور سے اس زمانہ میں آراستہ ہونے کے بعد جنّوں اور انسانوں میں سے کوئی بھی نبوت کی صفت سے موصوف نہیں ہوگا۔‘‘
(۷) تفسیر مدارک:وخاتم النبیین بمعنی الطابع ای اخرھم ’’خاتم النبیین مہر لگانے والا، سب پیغمبروں کے آخر میں آنے والا یعنی آپ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے گئے ہیں۔‘‘
(۸) تفسیر ابن کثیر:وخاتم النبیین فھذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ،واذا کان لانبی بعدہ ولا رسول بعدہ بالطریق الاولیٰ والاخریٰ لان مقام الرسالۃ ارفع من مقام النبوۃ۔’’پس یہ آیت صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور جب نبی آپ کے بعد نہیں آئے گا تو رسول بھی بطریق اولیٰ نہیں آئے گا کیونکہ رسول کا درجہ نبی کے درجہ سے بلند ہوتا ہے۔‘‘
نتیجہ: آٹھ مقتدر مفسرین حضرات کا متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ رسول اللہؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اگر مرزائی مسلمانوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ختم نبوت کے قائل ہیں تو پھر کیوں نہیں صاف طور پر اقرار کرتے کہ مرزا کے اخبار البدر کے دعویٰ کو ہم جھوٹا سمجھتے ہیں اور مرزا بشیر الدین محمود کے اس اعلان کو بھی جھوٹا سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔جب باپ اور بیٹے کے ان اعلانوں کا انکار نہیں کرتے تو پھر کیوں مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ختم نبوت کے قائل ہیں اور بازاروں اور دکانوں پر مفت اشتہار اور اخبار کے پرچے تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔‘‘(تفسیر لاہوری، جلد۷، ص:۴۷۷تا۴۷۹ )
جنات کو تابع کرنا اور عملیات کے پیچھے پڑ جانا لغویات میں سے ہے
’’میں(احمدعلی) نے اپنے بیٹوں کو وصیتیں کی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جنّوں کو تابع کرنے کے پیچھے نہ پڑنا اور نہ عملیات کے پیچھے پڑناکیونکہ یہ کام لغویات میں سے ہے۔ یہ کسب میں برا سمجھتا ہوں،ہمارا فرض تبلیغ دین ہے۔ دنیا اگر آکر بیٹھ جائے تو کوئی حرج نہیں یہ مشغلہ ہی غلط ہے،محمود نہیں سمجھتا معیوب سمجھتا ہوں۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۵۱۹)
حق پرست علمائے کرام کی تبلیغ پر کمزور مسلمانوں کا الزام
’’کافروں سے مراد پنجابی مسلمانوں کی اصطلاح کے مطابق فقط گنگا رام اور خوشحال سنگھ ہی نہیں ہیںبلکہ وہ نام کے مسلمان کہلانے والے بد نصیب بھی آئیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ان علمائے کرام کے فرمان واجب الاذعان یعنی قرآن مجید کی طرف سے اپنا رخ پھیر دیں، الٹا ان حق گو حق پرست علمائے کرام کی توہین کرتے ہیں، مثلاً یہ مولوی جانتے ہی کیا ہیں یا ان مولویوں کو آتا ہی کیا ہے، یا یہ داڑھیوں والے بڑے بے ایمان ہیں۔ اے پیغام حق پہنچانے والے علمائے کرام پر طعنہ زنی کرنے والے مسلمان! یاد رکھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا،اب تو ان حق پرست علمائے کرام(جن کی زندگی کا نصب العین خلق خدا کو پیغام کتاب اللہ و سنت پہنچانا ہے) کی تبلیغ کے باعث ہی تم پر الزام قائم کیا جائے گا کہ تمہارے پاس ایسے اللہ تعالیٰ کے بندے آئے تھے جو تمھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے تھے اور تم ان کی توہین کیا کرتے تھے۔اے طعنہ زنی کرنے والے بے دین مسلمان! اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو خلق خدا کو پیغام پہنچانے کے لیے میدان میں آتے ہیں وہ تمھاری طرح مزاج کے چھچھورے نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے تمھارے سامنے آتے ہیں جب تم جیسے بے لگام مسلمان ان کی توہین کرتے ہیں، وہ صبر کر جاتے ہیں اور دل میں یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہم تو تجھے راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری توہین بھی ہو جائے مگر تیرا دامن ان کے اعتراض سے پاک ہو جائے تو یہ بڑا سستا سودا ہے۔ اے اللہ! تیرا بڑا ہی شکر ہے کہ تو نے حق کے تحفظ کے لیے ہمیں ان بے دینوں کے سامنے ڈھال بنا لیا ہے ہم تو تیرے اس انعام کا شکر ساری عمر ادا نہیں کر سکتے۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۳۱۳)
ریاء کا علاج
’’ہر ایک کام کے وقت شیطان ریا کا خیال دل میں ضرور ڈالتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ انسان نیکی کرتے وقت ہوشیار رہے تاکہ اس قسم کا خیال نہ آئے اور اگر شیطان کی طرف سے کسی وقت حملہ ہو جائے اور یہ خیال دن میں آجائے تو اسے فوراً دل سے نکال دے اور یہ خیال کرے کہ میں تو محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ کام کر رہا ہوں۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۳ ۶ ۳)
تکبر کی برائی کا سبب
’’تکبر کی برائی کا سبب یہ ہے انسان اپنے کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ، اپنے کو معزز اور دوسروں کو ذلیل خیال کرتا ہے،حالانکہ عزت اور ذلت کا مدار اسلام میں دولت اور جائیداد خاندانی حسب یا حسن ظاہری قیمتی لباس نہیں بلکہ اسلام عزت کا معیار تقویٰ یعنی خوف خدا ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے وہ زیادہ معزز ہے بمقابلہ اس کے جو اللہ تعالیٰ سے کم ڈرتا ہے اور خوف خدا یہ دل کی چیز ہے لہٰذا کوئی شخص دوسرے کے دل میں جو خوف خدا ہے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے آپ کو دوسرے سے اعلیٰ اور معزز کہہ سکے،ہاں! اگر کوئی مالدار ہے تو وہ بے شک اچھا لباس پہنے،اچھا مکان بنا کر اس میں رہے، اپنی بود و باش اچھی رکھے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ فضل(نعمت) کا اثر انسان پر معلوم ہونا چاہیے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو آسودہ حال بنایا ہے تو وہ بے شک اچھا لباس پہنے تاکہ معلوم ہو کہ یہ مسلمان آسودہ حال ہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ میلے کپڑے یا پھٹے پرانے کپڑوں والوں کو ذلیل خیال کرے۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۴۵۴)
نیک اور بد کا فرق
’’انسان کے گفتار و کردار سے پتہ چل سکتا ہے، اگر اقوال و افعال میں نیکی پائی جاتی ہے تو یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں بھی اسلام کی عزت ہے اور سچا مسلمان ہے اور اگر عادات و اطوارمیں اسلام کی مخالفت کا رنگ غالب ہے تو یہی کہا جائے گا کہ اس شخص کے دل میں اسلام کی عزت نہیں، خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۵۱۴ )
مسلمان اور تصویر کا مرض
’’سیدالمرسلین خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ جو امراض یہود و نصاریٰ میں پیدا ہوئے تھے وہ امراض مسلمانوں میںضرور رونما ہوں گے چنانچہ مرض سابق یعنی صالحین کی تصویر کشی کا مسلمانوں میں رواج ترقی پذیر ہو رہا ہے، یہاں تک کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں اپنے مرشد کی تصویر(فوٹو) قرآن حکیم میں رکھی جاتی ہے، قرآن مجید کھولنے کے بعد سب سے پہلے مرشد کی فوٹو کو آنکھوں سے لگایا جاتا ہے، اس سعادت سے بہرہ ور ہو کر پھر قرآن مجید کی تلاوت شروع کی جاتی ہے علیٰ ہذاالقیاس۔ لیڈران قوم یا بعض مخلص احباب کے فوٹو تعظیماً دیواروں پر آویزاں کیے جاتے ہیں، مفسرین حضرات لکھتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے ابتداء اپنے بزرگوں کی تصاویر عبادت کے خیال سے نہیں بنائی تھیں بلکہ محض ان حضرات کی تصویر کو خدا سمجھ کر پوجا کرتے تھے لہٰذا تم بھی ان کی پرستش کرو، تب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر ان کی پرستش شروع کر دی چنانچہ بعینہ ہی اسی طرح اب مسلمانوں میں اپنا بزرگوں کی تصاویر کی پرستی شروع ہو گئی اور جن لوگوں کے گھروں میں یا ڈرائنگ روموں میں ابھی یہ نتیجہ نہیں نکلا لیکن آئندہ اس قسم کے نتائج مہلک نکلنے کا خطرہ ہے، انہی خطرات کو مد نظر رکھ کر دربار خاتم النبیینؐ سے تصویر کشی کی حرمت کے فرامین مختلفہ صادر ہوتے ہیں۔
شرعاً مسلمانوں کو فرض ہے کہ فوٹو کھینچوانے یا گھر میں رکھنے سے پرہیز کریں ورنہ خطرہ ہے کہ وہ اس فعل کے ارتکاب کے باعث عند اللہ ذلیل ہو کر جہنم رسید کیے جائیں گے البتہ جو چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہیں ان میں ہم مکلف نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ ان باتوں میں مواخذہ نہ ہوگا مثلاً مروج سکے یا نوٹ پر تصویر ہے اور ہمیں جلوت و خلوت میں اس کو جیب میں رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے یاگھر میں رکھا جاتا ہے، شاہی سکے تبدیل کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے اس لیے معذور ہیں یا مثلاً فن ڈاکٹری میں یا انجینئرنگ تعلیم پانے والے طلبہ کے لیے تصویر کشی کی قلمی مشق لازمی ہے جو اس سے احتراز کریںوہ تعلیم ہی نہیں پا سکتا علیٰ ہذاالقیاس اور بھی صورتیں مجبوری کی پیش آتی ہیںجیسے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ لہٰذا ان مجبوریوں میں حرمت تو ان اشیاء کی ویسی ہی رہے گی البتہ اضطرار کے باعث عفو کی امید ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۵۱۸ ) (جاری ہے )